۔اوربعض لوگ کہتےہیں کہ ان کا نام عویمر بن قیس بن زید ہے اوربعض نے کہاہے کہ ان کانام عویمربن ثعلبہ بن عامر بن زید بن قیس بن امیہ بن مالک بن عدی بن کعب بن خزرج بن حارث بن خزرج ہے۔کنیت ان کی ابوالدرداءتھی۔انصاری خزرجی ہیں۔اورکلبی نے کہاہےکہ ان کا نام عامر بن زیدبن قیس بن عبسہ بن امیہ بن مالک بن عامر بن عدی بن کعب بن خزرج بن حارث بن خزرج ہے۔ہم ان کاتذکرہ عامرکے نام میں کرچکے ہیں۔ابوعمرنے کہاہے کہ یہ کوئی قول صحیح نہیں ہے۔یہ اپنی کنیت ہی کے ساتھ مشہورہیں ہم ان کاتذکرہ کنیت کے باب میں اس مقام سے زیادہ کریں گے۔یہ افاضل صحابہ اورفقہاوحکما میں سے تھےان سے انس بن مالک اورفضالہ بن عبیداورابو امامہ اورعبداللہ بن عمراورابن عباس اورابوادریس خولانی اورجبیر بن نفیراور سعید بن مسیب وغیرہ نے روایت کی ہے۔یہ دیر میں اسلام لائےتھےلہذابدرمیں شریک نہ تھےاحد میں اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک تھےاوربعض لوگوں کابیان ہے کہ احد میں بھی شریک تھےسب سے پہلاغزوہ جس میں شریک ہوئے خندق تھا۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اورسلمان فارسی کے درمیان میں مواخات قائم کردی تھی۔ایوب نے ابوقلابہ سے روایت کی ہے کہ ابوالدرداءکاگذرایک شخص کی طرف سے ہواجس نے کچھ گناہ کیاتھااور لوگ اس کو برابھلاکہہ رہےتھے ابوالدرداء نے کہااچھابتاؤاگرتم اس کو کنویں میں گراہوا دیکھوتونکالوگے یانہیں لوگوں نے کہاہاں نکالیں گے ابوالدرداء نے کہاتواس کو برانہ کہواورخدا کا شکر کروکہ تم کو اس نے اس گناہ سے محفوظ رکھالوگوں نے ان سے کہاکہ کیاآپ اس شخص سے بغض نہیں رکھتےانھوں نے کہامیں اس کے کام سے بغض رکھتاہوں جس وقت وہ اس کام کو ترک کردے گاتومیرابھائی ہے۔صالح مری نے جعفربن زید عبدی سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوالدرداء کی جب وفات ہونے لگی تویہ روئےام الدرداء(ان کی زوجہ)نے ان سے کہاکہ آپ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہوکرروتے ہیں انھوں نے کہاکیوں نہ روؤں مجھے خبر نہیں کہ کن کن گناہوں کاسامنامجھے کرناہوگا۔شمیط بن عجلان نے بیان کیاہے کہ جب ابوالدرداء کی وفات ہونے لگی تو یہ بہت بے چین تھے ام الدرداء نے ان سے کہاکہ آپ توہم سے بیان کرتے تھے کہ میں موت کو دوست رکھتاہوں انھوں نے کہاہاں قسم اپنے پروردگارکی عزت کی(یہی بات ہے)مگرجب میرے نفس کوموت کایقین ہواتووہ موت کوبراجاننے لگایہ کہہ کرروئے اورکہاکہ دنیا میں میری یہ آخری ساعتیں ہیں تم لوگ میر ے سامنےلاالہ الااللہپڑھوپھربرابرخود اسی کلمہ طیبہ کی تکرارکرتے رہےیہاں تک کہ روح قبض ہوگئی۔بعض لوگوں نے بیان کیاہے کہ اس وقت انھوں نے اپنے بیٹے بلال کوبلایااورکہاکہ اے بلال اس وقت کے لیے کچھ کام کرجووقت تیرے باپ پردرپیش ہے اس وقت کے لیے کچھ سامان مہیاکراورمیری حالت کودیکھ کر اپنی حالت کا خیال کر۔ان کی وفات حضرت عثمان سے دوبرس پہلے ہوئی تھی اوربقول بعض ۳۳ھ ہجری یا ۳۲ھ ہجری میں شہر دمشق میں وفات پائی لیکن پہلاقول زیادہ صحیح ہے اہل علم یہی کہتےہیں کہ حضرت عثمان کی خلافت میں ان کی وفات ہوگئی تھی اگریہ حضرت عثمان کے بعد زندہ رہتے توضرورتھاکہ ان کا ذکریاتوگوشہ نشین صحابہ میں ہوتایالڑنے والوں میں ان کا تذکرہ ہوتاحالانکہ ان دونوں قسموں میں سے کسی قسم میں ان کانام نہیں لیاگیا۔واللہ اعلم۔ابومسہرنے بیان کیا ہے کہ میرے علم میں دمشق میں اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سوابوالدرداء اوربلال موذن اورواثلہ بن اسقع اورمعاویہ کے کوئی نہیں آیا۔ حضرت ابوالدرداء کارنگ سرخ تھازردرنگ کا خضاب لگایاکرتےتھےٹوپی کے اوپر عمامہ باندھتے تھے عمامہ کا شملہ دونوں شانوں کے درمیان میں رہتاتھاان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد بمبر 6-7)