بن عائش بن قیس بن نعمان بن زید بن امیہ بن مالک بن عوف بن عمروبن عوف بن مالک بن اوس۔انصاری اوسی۔ابن اسحاق نے کہاہے کہ ان کانسب یوں ہے عویم بن ساعدہ بن صلعجہ یہ قبیلۂ بنی عمروبن الحاف۔بن قضاعہ سے ہیں بنی امیہ ابن زید کے حلیف تھے۔واقدی وغیرہ نے بیان کیاہےکہ یہ منجملہ ان سترآدمیوں کے تھےجوبیعت عقبہ ثانیہ میں شریک تھےاورعدوی نے ابن قداح سے نقل کیاہے کہ یہ تینوں عقبوں میں شریک تھے۔ابن قداح نے بیان کیاہے کہ پہلے عقبہ میں آٹھ آدمی تھےاوردوسرے میں بارہ اورتیسرے میں ستر۔ابن مندہ نے ان کا نسب اس طرح بیان کیا ہے عویم بن ساعد بن حابس حالانکہ یہ غلط ہے صحیح لفظ عابس ہے۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اورحاطب بن ابی بلتعہ کے درمیان میں مواخات کرادی تھی۔بدرمیں اوراحد میں اور خندق میں اورتمام مشاہد میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک تھے۔ہمیں ابویاسر بن ابی حبہ نے اپنی سند کے ساتھ عبداللہ بن احمد سے نقل کرکے خبردی وہ کہتےتھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے خنیس بن محمد نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے ابوادریس نے شرحبیل بن سعد سے انھوں نے عویم بن ساعدہ انصاری سے نقل کرکے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجدقبامیں ہم لوگوں کے پاس تشریف لے گئےاورفرمایاکہ اللہ نے تمھاری پاکیزگی کی تعریف فرمائی ہے توکیاطریقہ تمھاری طہارت کا ہے ہم لوگوں نے عرض کیاکہ یارسول اللہ ہمارے پڑوس میں کچھ یہود رہتےہیں وہ پاخانہ سے فراغت کے پانی سے آب دست لیے ہیں توہم نے ان کا طریقہ اختیارکرلیا۔ابوعمرنے بیان کیاہے کہ ان کی وفات رسول خدا کی حیات میں ہوچکی تھی اوربعض لوگوں نے بیا ن کیاہے کہ حضرت عمربن خطاب کے عہد خلافت میں بعمرپینسٹھ یا چھیاسٹھ سال میں وفات پائی اوریہی صحیح ہےکیونکہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت میں ان کا کچھ تذکرہ ہےہمیں یحییٰ بن محمود نے اجازۃً اپنی سندکے ساتھ ابوبکربن ابی عاصم سے نقل کرکے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے یعقوب ابن حمیدبن کاسب نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے عاصم بن سوید نے بیان کیاوہ کہتےتھے میں نے عبیدہ بنت عویم بن ساعدہ سے سنا وہ کہتی تھیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمربن خطاب نے عویم بن ساعدہ کی قبرکے پاس کھڑے ہوکرفرمایاکہ روئے زمین پرکوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتاکہ میں اس قبرکے رہنے والے سے بہترہوں جب رسول خدا صلی اللہ علی وسلم نے کوئی جھنڈا جہاد کے لیے کھڑاکیاتوعویم اس کے نیچے ضرورہوتےتھے۔ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہےاورابن مندہ نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب کے دومقام میں لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد بمبر 6-7)