ابن معاذ انصاری اوسی اشہلی۔ ہمیں ابو جعفر عبید اللہ بن احمد بن علی یغدادی نے اپنی سند سے یونس بن کبیر سے انھوں نے بن اسحاق سے وایت کی ہے کہ انھوں نے کہا مجھے حصین ابن عبدالرحمن بن عمرو بن سعد بن معاذ نے محمو دبن لبید سے جو نبی عبد الاشہل کے بھائی تھے روایت کی ہے ہ انھوں نے کہا جب ابو الحیسر یعنی انس بن رافع مکہ میں آئے اور ان کے ساتھ بنی عبدالاشہل کے چند جوان تھے ان میں ایاس بن معاذبھی تھے۔ یہ لوگ قریش سے اپنی قوم خزرج کے لئے حلف کی دوستی کرانے آئے تھے رسول خدا ﷺ نے جو ان کے آنیکا حال سنا تو ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے پاس جا کے بیتھ گئے اور فرمایا کہ اے لوگو کیا تم اس بات کو پسند کرو گے جو اس کام سے بھی بہتر ہے جس کے لئے تم آئے ہو ان لوگوں نے پوچھا کہ وہ کیابات ہے حضرت نے فرمایا (وہ یہ بات ہے کہ) میں خدا کا پیغمبر ہوں مجھے اللہ نے اپنے بندوں کی طرف بھیجا ہے تاکہ میں انھیں اس بات کی ترغیبدوں کہ وہ خدا کی پرستش کرین اور خدا کے ساھ کسی کو شریک نہ کریں و میرے اوپر خدا نے کتاب نازل فرمائی ہیبعد اس کے آپنیان سے اسلام کا ذکر کیا اور انھیں قرآن پڑھ کے سنایا تو ایاس بن معاذ نے کہا اور یہ اس زمانے میں نوجوان تھے کہ اے میری قوم کے لوگو خدا کی قسم یہ بات اس سے بہتر ہے جس کے لئے تم آئے ہو تو ابو الحیسر نے (غصہ میں آکے) ایک مٹھی کنکری لے کر ایاس کے منہ پر ماریں اور (آنحضرت ﷺ سے) کہا کہ ہمیں ان باتوں سے معاف رکھیے ہم دوسرے کام کے لئے آئے ہیں اس کے بعد وہ چپ ہوگیا اور رسول خدا ﷺ ان لوگوں کے پاس سے اٹھ آئے اور وہ لوگ مدینہ لوٹ گئے پھر اوس و خزرج کے درمیان میں واقعہ بعاثہوا پھر ایاس بن معاذ تھوڑے ہی دن کیبعد انتقال کر گئے۔ محمود بن لبید کہتے تھے کہ ان کی قوم کے جو لوگ ان کے پاس بوقت موت موجود تھے وہ مجھ سے کہتے تھے کہ ان لوگوں نے برابر کو تہلیل اور تکبیر کہتے ہوئے اور اللہ کی حمد اور پاکی بیان کرتے ہوئے سنا یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوگیا لہذا تمام سب لوگوٌ کو یقین تھا کہ وہ مسلمان مرے انھوںنیاحتلام کی خوبی اسی مجلس میں بیان کی جس مجلس میں انھوں نے رسول کدا ﷺ سے ذکر سنا۔ انکا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)