ابن ورقاء بن عمرو بن ربیعہ بن عبدالعزی بن ربیعہ بن جزی بن عامر بن مازن بن عدی بن عمرو بن ربیعہ ربیعہ وہی عی خزاعی ہیںان کا نسب ابن کلبی نے اسی طرح لکھاہے اور ابو عمر نے ان کو لکھا ہے بدیل بن ورقاء بن عبد العزی بن ربیعہ خزاعی اور ابن ماکولا نے ہشام کی طرح ان کا نسب جزی تک پہنچایا ہے جزی کے بعد ان کا نسب متفق علیہ ہے۔ ابن مندہ اور ابو نعیم نے کہا ہے کہ یہ قدیم الاسلام ہیں اور ابو عمر نے لکھا ہے کہ یہ اور انکے بیٹِ عبداللہ اور حکیم بن حزام فتح مکہ کے دن مقام مر الظہران میں اسلام لائے تھے جیسا کہ ابن شہاب نے بیان کیا ہے اور ابن اسحاق نے کہا ہے کہ فتح مکہ کے دن کفار قریش نے بدیل بن ورقاء اور ان کے غلام رافع کے مکان میں پناہ لی تھی بدیل اور ان کے بیٹے عبداللہ حنین میں اور طائف میں اور تبوک میں شریک تھے اور فتحکے دن مسلمانوں میں ان کا مرتبہ سب ے زیادہ ہے انھوں نے کہا ہے کہ بعض لوگوںکا بیان ہے کہ یہ فتح مکہ سے پہلے اسلام لائے۔ ہمیں یحیی بن محمود ثقفی نے اجازۃ اپی اسناد سے ابوبکر بن ابی عاصم تک خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے عبدالرحمن بن محمد بن عبدالرحمن بن محمد بن بشر بن عبداللہ بن سلمہ بن بدیل بن ورقاء نے بیان کیا وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد محمد بن عبدالرحمن سے وہ اپنے والد عبداللہ بن سلمہ سے وہ اپنے والد محمد بن بشر سے وہ اپنے والد بشر بن عبداللہ سے وہ اپنے والد عبداللہ بن سلمہ سے وہ اپنے والد سلمہس ے نقل کر کے بیان کرت تھے کہا نھوں نے کہا مجھے میرے والد بدیل بن ورقاء نے ایک خط دیا اور کہا کہ اے میرے بیٹِ یہ رسول خدا ﷺ کا خط ہے تم اسے حفاظت سے رکھنا کیوں کہ جب تک یہ خط تم لوگون کے پاس رہے گا (عبارت اس خط کی تھی) بسم اللہ الرحمن الرحیم من محمد رول اللہ الی بدیل بن ورقاء و سراوت بنی عمرو فانی احمد الیکم اللہ الذی لا الہ الا ھو اما بعد فانی لم اثم بالکم ولم اضع فی حنبکم واکرم اہل تہامتہ علی انتم و اقربہم لی رحما ومن معکم من الطیبین وانی قد اخذت لمن ہاجر منکم مثل ما اخزت لنفسی ولوہا جر باضیہ غیر ساکن مکتہ الامعتمرا اوحا جا وانی لم اضع فیکم اذا سلمت وانکم گیر خائفین من قبلی ولا محصرین (٭ترجمہ۔ سبم اللہ الرحمن الرحیم محمد رسول اللہ کی طرف بدیل بن ورقاء اور سرداران قبیلہ بنی عمرو کو۔ میں تمہارے سامنے اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں اما بعد واضح ہو کہ میں ن تمہارے دلوںکو ستایا نہیں اور تمہرے ضائع نہیں کئے۔ تہامہ کے رہنے والوں میںتم اور تمہارے ساھی مجھے بہت عزیز ہیں وار تم لوگ سب سے زیادہ میرے قریب ہو تم لوگ پاکیزہ لوگوں میں سے ہو جس شخص نے تم میں سے ہجرت کی ہے اس کا میں ویسا ہی حق کھتا ہوں جیسا اپنا حق اگرچہ وہ پھر اپنے وطن کو واپس آگیا مگر مکہ کا رہنے والا مکہ واپس نہ جائے مگر بغرض عمرہ کرنے یا حج کرنیکے میں تمہاری حق تلفی نہ کروں گا جب کہ میں نے تمہیں پناہ دی اور تم یری طرف سے کسی قسم کا خوف نہ کرو نہ یہ خیال کرو کہ تم قید کر لئے جائو گے) یہ حدیث غریب ہے۔ یہ
خط علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا۔ بدیل بن ورقاء کی وفات نبی ﷺسے پہلے ہوگئی تھی۔ انھیں (ایک مرتبہ) نبی ﷺ نے حکم دیا تھا کہ حنین کے مال غنیمت کو اور عورتوں کو مقام جعرانہ میں آپ کے پہنچنے تک روک رکھیں۔ انکا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)