ابن ذویب۔ ابو موسینے کہا ہے کہ بسند غیر متصل ابوہریرہ سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا معاذ بن جبل رسول خدا ﷺ کی خدمت میں سخت زار زار روتے ہوئے گئے تو اسے رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ اے معاذ کیوں روتے ہو معاذ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ایک جوان دروازے پر کھڑا ہوا ہے جس کا جسم تر و تازہ اور رنگ چمکدار ہے صاف کپڑے پہنے ہوئے ہے خوبصورت ہے وہ اپنی جوانی پر ایسا رو رہا ہے جس طرح ماں اپنے بچے کے مر جانے سے روتی ہے وہ آپ کے پاس آنا چاہتا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اے معاذ اس جوان کو میرے پاس لے آئو اور اسے دروازے پر نہ رکو حضرت ابوہریرہ رضیا للہ عنہ کہتے ہیں ہ معاذ نے اس جوان کو اندر بلا لیا نبی ﷺ نے فرمایا کہ اے جوان تو کیوں رو رہا ہے اس نے عرض کیا کہ یارسول اللہ میں کیوں نہ روئوں میں سخت گنہگار ہوں اگر کسی گناہ پر مواخذہ ہوگیا تو میں ہمیشہ کیلئے دوزخ میں پڑ جائوں گا۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالی عنقریب مجھ سے مواخذہ کرے گا راوی نے پوری حدیث ذکر کی وہ کہتا تھا کہ وہ جوان روتا ہوا چلا گیا یہاں تک کہ مدینہ کے کسی پہاڑ میں جاکر چھپ گیا اور اس نے ایک کمبل پہنا اور اپنے ہاتھوںکو لوہے کی زنجیر سے گردن کے پاس کس لیا اور چلایا کہ اے میرے معبود اے میرے آقا اور میرے مولا یہ بہلول بن ذویب ہے جو زنجیروں میں جنکڑا ہوا اپنے گناہوںکا اقرار کر رہا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ یہ شخص نبی ﷺ کے پاس روتا ہوا گیا اور اسی قسم کا قصہ منقول ہے اور اس شخص کا نام اس روایت میں نہیں ہے بعض روایتوں میں آیا ہے کہ ان کا نام ثعلبہ تھا مگر یہ اکثر باتیں ثابت نہیں ہوئیں۔ ان کا تذکرہ ابو موسی نے لکھاہے۔