ابن عبداللہ جذامی۔ بعض لوگ ان کو جہنی کہتے ہیں۔ابو موسی نے کہا ہے کہ عبدان نے ان کا تذکرہ صحابہ میں کیا ہے اور اپنی اسناد سے ابو اسحاق سے انھوں نے ابو اسماعیل سے انھوں نے اسامہ بن زید سے انھوں نے بعجہ جہنی سے انھوں نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا لوگوں پر ایک زمان ایسا آئے گا کہ اس زمانے میں سب سے بہتر وہ شخص ہوگا جو اپنے گھوڑے کی باگ پکڑے رہے اور جب لڑائی کی خبر سنے تو گھوڑے پر وار ہو جائے اور موت پر آمادہ ہو جائے یا وہ شخص جو اپنا کچھ مال لے کر کسی درے میں چلا جائے اور نماز پڑھے اور زکوۃ دیتا ہے یہاں تک کہ اس کو موت آجائے۔
عبدان نے کہا ہے کہ ہمیں ابن بعجہ کے متعلق کچھ معلوم نہیں کہ انھوں نے نبی ﷺ کو دیکھا اور آپ سے رویات کی یا نہیں ہاں ان کے والد عبداللہ بن بسیر کا صحابی ہونا البتہ ہمیں معلوم ہے۔ بعجہ اپنے والد سے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہس ے رویت کرتے ہیں مگر ہم نے ان کا تذکرہ صرف اپنے بعض اصحاب کے موافق لکھ دیا۔
میں کہتا ہوں کہ عبدان نے جو ان کو لکھا ہے کہ صحابی نہیں ہیں۔ یہ صحیح ہے۔ اور اس قسم کے مراسیل میں نہیں جانتا کہ ان کے صحابی ہونے کو کس طرح ثابت کر سکیں گے یہ حدیث جو انھوں نے ذکر کی یہ بھی مرسل ہے۔ہمیں ابوبکر محمد بن رمضان بن عثمان تبریزی نے خبر دی وہ کہتے تھے مجھے میرے والد نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں استاذ ابو القاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیری نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں علی بن احمد بن عبدان نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں احمد بن عبید بصرینے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں عبدالعزیز بن معاویہ نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں قعبنی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں عبدالعزیز بن ابی حازم نے اپنے والد سے انھوں نے بعجہ بن عبداللہ ن بدر جہنی سے انھوںنے ابوہریرہ سے نقل کر کے خبر دی کہ انھوں نے کہا رسول کدا ﷺ نے فرمایا سب سے ہتر وہ شخصہے جو اپنے گھوڑے کی باگ اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے کے لئے) ہاتھ میں لیے رہے جہاں کسی جنگ کی خبر ملے فورا اپنے گھوڑے پر سوار ہو کے ادھر چل دے۔ اس حدیچ کو مسلم نے یحیی بن یحیی سے انھوں نے عبدالعزیز بن ابی حازم سے روایت کی اہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ حدیث جو عبدان نے ذکر کی مرسل ہے اس سے بعجہ کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہوسکتا واللہ اعلم۔ ان کا تذکرہ ابو موسینے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)