ابن امیہ ضمری۔ عمرو بن امیہ بن خویلد بن عبداللہ بن ایاس بن عبد بن یاسر بن کعب بن حدی بن ضمرہ کنانی ضمری۔ ان کا شمار اہل حجاز میں ہے۔ ان کی حدیث صرف محمد بن اسحاق نے لکھی ہے۔ ہمیں عبداللہ بن احمد بن عبد القاہر نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں صنقیب طراد بن محمد نے اگر سماعا نہیں تو اجازۃ خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو الحسین بن بشران نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو علی بن صفوان برذعی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابوبکر عبداللہ بن محمد بن عبید نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں فضل بن غانم خزاعی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں محمد بن اسحاق نے خسن بن فضل بن حسن بن عمرو بن امیہ سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے اپنا چچا بکر بن امیہ سے نقل کر کے بیان کیا کہ وہ کہتے تھے کہ شوع زمانہ اسلام میں بلاد بنی ضمرہ می ایک ہمارا پروسی تھا وہ قبیلہ جہینہ کا تھا ہم اس وقت مشرک تھے ایک ہمارا دشمن تھا نہایت خبیش جسے ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے اس کا نامہ دیشہ تھا وہ ہمیشہ ہمارے اس جہنی پروسی پر زیادتی کیا کرتا تھا اس کے اونٹ اور اونٹنیاں پکڑ لے جاتا تھا وہ جہنی ہمارے پاس شکایت لے کر آیا کرتا اور ہم یہ جواب دیتے کہ خدا کی قسم ہمیں کوئی تدبیر معلوم نہیں ہوتی کہ ہم اسے قتل کر دیں خدا اسے قتل کر دے یہاں تک کہ ایک مرتبہ دیشہ نے اس جہنی پر زیادتی کی اور اس کی ایک نہایت عمدہ اونٹنی پکڑ لے گیا اور اسے ایک نالہ میں لے جا کر (بے تامل) ذبح کر ڈالا اور اس کا کوہان اور دوسرے عمدہ مقامات کا گوشت کاٹ کر لے گیا باقی وہیں چھوڑ دیا اس جہنی نے جب اس اونٹنی کو نپایا تو اس کی تلاش کرنے کے لئے نکلا یہاں تک کہ اسے اس مقام پر پایا جہاں وہ ذبح کی گئی تھی پس وہ جہنی بنی ضمرہ کی مجلس میں آیا اور نہایت رنج کے ساتھ اس نے یہ اشعار پڑھے۔
اصادق دیشتہ بال صمرہ ان لیس للہ علیہ قدرہ ما ان یزال شار فا و بکرہ یطعن منہا فی سوا والثغرۃ
بصارم ذی رونق او شفرہ اللہم ان کان معدا فجرہ فاجعل امام العین منہ فجرہ تاکلہ حتی یو انی الحفرہ
(٭کیا دیشہ نے ضمرہ (قبیلہ) کے دلوں سے موافقت کر لی ہے۔ کہ اللہ کو اس پر قدرت نہیں ہے۔ برابر اس کے (یعنی میرے) اونٹ اور اونٹنیاں پکڑ لے جاتا ہے۔ اور انکی گردن میں زخم مارتا ہے۔ تیر تلوار سے یا چہری سے۔ اے اللہ اگر معد (یعنی اہل عرب) نے مجھ سے خلاف عہد کیا ہے۔ تو تو اس کی آنکھوںکے سامنے ناسور کر دے۔ تاہ وہ ناسور اسے کھا جائے اور دماغ تک پہنچ جائے)
راوی کہتا ہے ہک اللہ نے دیشہ کے دونوں آنکھوں کے سامنے دونوں گوشہ چشمن میں جہاں کے لئے اس جہنی نے دعا مانگی تھی ایک ایک دناہ بیری کے بربر پیدا کر دیا ہم موسم حج میں گئے تھے حج سے لوٹے تو دیکھا کہ دیشہ کے اکلہ (٭اکلہ ایک زخم کو کہتے ہیں جو سڑتا چلا جائے اور اس کی وجہ سے جسم گل گل کر فنا ہوتا جائے) ہوگئی ہے جس نے اس کے تمام سر کو کھا لیا ہے جب ہم لوٹ کے آگئے تو وہ مرگیا۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)