ابن شداخ لیثی۔ بعض لوگ ان کو بکیر کہتے ہیں۔ یہ نبی ﷺ کی خدمت کیا کرتے تھے ان سے عبدالملک بن یعلی لیثی نے رویات کی ہے کہ یہ نبی ﷺ کی خدمت کیا کرتے تھے اور یہ اس وقت بچے تھے جب بالغ ہوئے تو نبیﷺ کے حضور میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ میں اب تک تو آپکے گھر میں جاتا تھا مگر ابم یں بالغ ہوگیا ہوں (اب نہیں جاسکتا) نبی ﷺ (ان کی اس دیانت سے خوش ہوئے اور اپ) ن فرمایا کہ اے اللہ ان کی بات کو سچا رکھ اور ہمیشہ انھیں منصور و مظفر رکھ چنانچہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت میں یہ ایک یہودی کو قتل کر آئے حضرت عمر رضیاللہ عنہ کو یہ بات بہت ناگوار گذری اور آپ منبر پر چڑھ گئے اور فرمایا کہ اللہ اکبر کیا میری حکومتم ین اور میری (٭کہاں ہیں وہ جو اسلام پر خونریزی کا الزام لگاتے ہیں ذرا اس واقعہ کو اور اس کے مثل بے شمار واقعات کو دیکھیں کہ ایک کافر کے قتل پر خلیفہ رسول اللہ کی کیا حالت تھی) خلافت میں لوگ قتل کیے جائیں گے میں اس شخص کو اللہ کی یاد دلاتا ہوں جس کے پاس علم ہو کہ وہ مجھے رئے دے (کہ اس معاملہ میں کیا کرنا چاہئے) پس بکر بن شداخ (خود ہی) کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے میں رائے دوں گا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ اکبر تو نے خون کا وبال لیا اچھا اب تو ہی اپنے نجات کی سبیل بتا انھوں نے کہا ہاں (میں بتاتا ہوں) فلاں شخص جہاد میں گیا ہے اور وہ اپنے اہل و عیال کو میری حفاظت میں دے گیا تھا چنانچہ میں اس کے دروازہ پر گیا تو میں نے س کے گر میں س یہودی کوپایا اور وہ یہ کہہ رہا تھا۔
واشعث غرۃ الاسلام منی خلوت بعرسہ لیل التمام ابیث علی ترابئھا و ہمسی علی قود الاعنتہ والحزام
کان مجامع الربلات منہا فیام بنیضون الی فیام
(٭اسلام کی یشانی میری وجہس ے غبار آلود ہوگئی (یعنی میں نے اسلام کو ذلیل کیا) میں نے اس (مجاہد۹ کی بی بی سے ایک بڑی بات میں خلوت کی میں نے اس کے پہلو میں پوری رات گذاری اور اس کا شوہر تمام دن جہاد میں گھوڑے کی باگ اور تنگ کھینچا کرتا ہے اس کی اپنی ہوئی رانوں کے سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا ایک گروہ دوسرے گروہ کی طرف جھک رہا ہے)
راوی کہتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے بات کی تصدیق کی کیوں کہ نبی ﷺ نے انھیں دعا دی تھی کہ اے اللہ ان کی بات کو ہمیشہ سچ رکھ۔
میں ہتا ہوں کہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے بھی ان کا ذکر لکھا ہے مگر ان دونوں نے ان کا نسب نہیں بیانکیا کلبی نے ان کا نسب بیان کیا ہے اور انھوںنے ان کا نام بکیر بتایا ہے اور ان کے والد کا نام کعب بن عامر بن لیثبن بکر بن عبد مناۃ بن کنانہ بن خزیمہ کنانی لیثی یہ بڑے سخت شہسوا ر تھے انھیں کی نسبت شماخ نے یہ شعر کہا ہے
وغیت عن خیل بموفان اسلمت بکیر بنی الشداخ فارس اطلال
(٭ترجمہ اور تو اس لشکر میں نہ تھا جس نے (مقام) موقان میں بکیر بنی داح شہسوار کے سامنے سر جھکا دیا)
ملبی نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ وہیبکیر ہیں جن کا قصہ مذکور ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ حق وہی ہے جو کلبی نے کہا کیوں کہ وہ نسب کے عالم ہیں۔ انکے نسب میں چونکہ نداخ ہیں اس وجہس ے ابن مندہ اور ابو نعیم نے ان کو باپ سمجھ لیا حالانکہ وہ قریب کے باپ نہیں ہیں اور غالبا ابو نعیم نے ابن مندہ کی پیروی کر کے یہ لکھ دیا واللہ اعلم۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)