ابن عمرو انھیں نبی ﷺ نے قافلہ ابی سفیان کی طرف بھیجا تھا۔ اور ان سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے بسبب بن عمرو کو جاسوس بنا کر قافلہ ابی سفیان کی طرف بھیجا تھا۔ جب وہ لوٹ کے آئے تو انھوں نے آپ ے سارا واقعہ بیان کیا۔ ان کا تذکرہ صرف ابن مندہ نے لکھاہے میں نے ان کا نام تین صحیح نسخوں میں جو اساتذہ کو سنائے جاچکے تھے اور لوگوں نے ان کی تصحیح کی تھی دیکھا ہے ایک نسخہ کی نسبت تو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ابو عبداللہ بن مندہ کا تھا اور اس پر کئی مرتبہ سننے کے نشانات اس وقت سے اس وقت تک کے بنے ہوئے تھے اس نسخہ میں ان کا نام لکھا تھا بسیسہ بضم باء و فتح سین اور سین کے بعد یے۔حالانکہ یہ غلط ہے۔ میں کہتا ہوںکہ ابن مندہ نے ان کا تذکرہ اسی طرح لکھا ہے اور ان کو بسبسہ کے سوا اور کوئی شخص سمجھا ہے کیوں کہ ان کے تذکرہ میں انھوں نے نہیں لکھا کہ انھیں نبی ﷺ نے جاسوس بنا کے بھیجا تھا حالانکہ یہ دونوں ایک ہیں ار بعض لوگ بسبس بغیر ہے کے اور بعض لوگ کہتے ہیں بسبسہ دو بے کے ستھ اور بسبس کے بیان میں یہ قول گذر چکا ہے۔ ہمیں ابو الفرج بن محمود اصفہانی نے اپنی سند سے مسلم بن حجاج سے نقل کر کے خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے ابوبکر بن نفر بن ابی نضر نے اور
ہلدون بن عبداللہ نے اور محمد بن رافع نے اور عبد بن حمید نے بیانکیا الفاظ ان سب کے قریب قریب تھے یہ لوگ کہتے تھے کہ ہم سے ہاشم بن قاسم نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے سلیمان بن مغیرہ نے ثابت سے انھوں نے حضرت انس سے نقل کر کے بیان کیا کہ رسول خدا ﷺ نے بسبسہ کو جاسوس بنا کے بھیجا تاکہ وہ دیکھیں کہ ابو سفیان کے قافلے نے کیا کیا پس جس وقت وہ لوٹ کے آئے س وقت میرے اور رسول خدا ﷺ کے سوا گھر میں کوئی نہ تھا شاید بعض بی بیاں آپ کی تھیں پھر پوری حدیچ انھوںنے بیان کی وہ کہتی تھی کہ پھر رسول خدا ﷺ کے سوا گھر میں کوئی نہ تھا شاید بعض بی بیاں آپ کی تھیں پھر پوری حدیث انھوںنے بیان کی وہ کہتی تھی کہ پھر رسول خدا ﷺ باہر تشری فلائے اور فرمایا کہ ہمیں کچھ لوگوںکا تعاقب کرنا ہے لہذا جس ی سواری موجود ہو وہ ہمارے ساتھ چلے تو لوگ آپ سے ہمرکابی کی اجازت مانگنے لگے کہ ہماری سواریاں مدینہ کی بلندی پر ہیں آپ نے فرمایا نہیں صرف وہ شخص ہمارے ہمراہ چلے جس کی سواری یہاں موجود ہو چنانچہ رسول خدا ﷺ معہ اپنے صحابہ کے تشریف لے چلے یہاں تک کہ مشرکین سے پہلے مقام بدر میں پہنچ گئے۔ الی آخرحدیث
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)