سیدنا) بسبس (رضی اللہ عنہ)
سیدنا) بسبس (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
جہنی نصاری۔ قبیلہ بنی سعادہ بن کعب بن خزرج سے ہیں ان کے حلیف تھے عروہ بن زبیر نے کہا ہے کہ وہ طریف بن خزرج کی اولاد سے ہیں بدر میں شریک تھے جیسا کہ زہری نے کہا ہے یہ سب بیان ابن مندہ کا تھا۔ مگر ابو نعیم نے کہا ہے کہ بسبس انصاری جہنی اور بعض لوگ بسبسہ بن عمرو بھی کہتے ہیں ابو نعیم نے اس سے زیادہ ان کا نسب نہیں بیان کیا اور ابو عمر نے کہا ہے کہ بسبس بن عمرو ابن ثعلبہ بن خرشہ بن عمرو بن سعد بن ذبیان ذیبانی ثم الانصاری۔ ابو عمر نے کہا ہے ہ بعض لوگ ان کو بسبسہ بن بشر بھی کہتے ہیں بدر میں شریک تھے ابن کلبی نے بھی ان کا نسب ایسا ہی بیان کیا ہے ور ذبیان کیبعد انھوں نے اس قر زیادہ کر دیا ے ابن رشدان بن غطفان ابن قیس بن ج ہینہ بن زید بن لیث بن سواد بن اسلم بن الحاف بن قضاعہ ان کا شمار انصار میں ہے انھیں سے مخاطب ہو کر ایک شخص نے بطور جز کے کہا ہے افصم لہا صدورہا یا بسبس(٭ترجمہ۔ اے بسبس ان لوگںکے سینے اس بات سے رک گئے ہیں) ابن کلبی کا کلام ختم ہوگیا۔ لوگوںکا بیان ہے کہ یہ بدر میں شریکت ھے ابو عمر اور ابو نعیم نے انس سے روایت کی ہے ہ انھوں نے کہا رسول خدا ﷺ نے بسبس کو جن کو بعض لوگ بسبسہ کہتے ہیں عدی بن ابی الرغیا کے ہمراہ ابو سفیان کے قافلہ کی طرف بھیجا تھا بسبس نے لوٹ کر سب کیفیت حضرت سے بیان کی اسی پر آپ جنگ بندر کی طرف تشریف لے گئے۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
میں کہتا ہوں کہ ان لوگوںکے اس قول میں کہ یہ بنی ساعدہ سے ہیں اور اس قول میں کہ بنی طریف بن خزرج سے ہیں کوئی تناقض نہیں ہے کیوں کہ طریف خزرج بن ساعدہ بن کعب بن خزرج اکبر کے بیٹے بھی ہیں اور طریف بنی ساعدہ کے ایک بطن کا بھی نام ہے۔
بسر
یہ بسر ارطاۃ کے بیٹے ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں ابو ارطاۃ کے بیٹے ہیں ابو ارطاۃ کا نام عمرو بن عویمر بن عمران بن حلبس بن سیار بن نزار بن معیص بن عامر بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ ہے بعض لوگ کہتے ہیں ان کا نام ارطاۃ بن ابی ارطاۃ ہے میں ابو ارطاۃ کا نام عمیر ہے واللہ اعلم۔ حضرت بسر کی کنیت ابو عبدالرحمن ہے ان کا شمار اہل شام یں ہے واقدی نے کہا ہے کہ نبی ﷺ کی وفات سے دو برس پہلے ان کی وفات ہوئی۔ یحیی بن معین نے اور احمد بن حنبل وغیرہ نے کہا ہے کہ جب رسول خدا ﷺ کی وفات ہوئی تو یہ کمسن تھے اور اہل شام کہتے ہیں کہ انھوں نے رسول خدا ﷺ سے حدیثیں سنی ہیں یہ منجملہ ان لوگوںکے ہیں جنھیں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عاص کی مدد کے لئے فتح مصر کے وقت بھیجا تھا مگر اس میں بھی اختلاف ہے جن لوگوںنے ان کا تذکرہ ان لوگوں یں کیا ہے انھوںنے کہا ہے کہ یہ چار آدمی تھے زبیر اور عمیر بن وہب اور خارجہ بن حذافہ اور بسر بن ارطاۃ اور اکثر لوگ کہتے ہیں کہ یہ لوگ تھے زبیر اور مقداد اور عمیر اور خارجہ ابو عمر نے کہا ہے کہ یہی صحیح ہے ابو عمر کہا ہے کہ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہیک ہ مقداد فتح مصر میں شریک تھے۔ ہمیں ابو احمد عبدالوہاب بن علی امیں نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو غالب یعنی محمد بن حسن ماووی نے اپنی اسناد سے سلیمان بن اشعث تک خبر دی وہ کہتیت ھے ہمس ے احمد بن صالح نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں ابن وہب نے خبر دیوہ کہتے تھے مجھے حیاۃ نے عیاش ابن عیاش قتبانی
سے انھوں نے شیم بن تبیان اور یزید بن صبح اصبحی سے انھوں نے خبادہ بن ابی امیہ ے نقل کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے ہم دریا (کے سفر) میں بسر بن ارطاۃ کے ہمراہ تھے ایک چور ان کے سامنے لایا گیا جس کا نام مصدر تھا ا نے کچھ چری کی تھی تو بسر نے کہا کہ میں نے رسول خدا ﷺ سے سنا ہے ہ آپ فرمات یتھے سفر میں (چور کے) ہاتھ نہ کاٹے جائیں۔ بسر جنگ صفین میں حضرت معاویہ کی طرف تھے حضرت علی اور ان کے اصحاب کے لئے بہت سخت تھے ابو عمر نے کہا ہے ہ یحیی بن معین کہتے تھے کہ بسر صحابی نہیں (٭بسر کو اگر صحابی مان لیں تب بھی کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیوںکہ ہم ان صحابہ کے فضائل کے معتقد ہیں جو یوم مرگ شریعت پر مستقیم رہے ہوں اب ان کا شریعت پر مستقیم رہنا خواہ اس میں روایات سے معلوم ہوا ہو یا قرآن عظیمسے مثلا قرآن مجید میں ان کی تعریف ہو یا خدا نے اپنی رضامندی ان سے ظاہر فرمائی ہو جیسا کہ مہاجرین و انصار اور اصحاب بیعۃ الرضوان کے لئے ان صحاب کے مستقیم رہنے کا ہم کو قرآنسے علم ہوا کیوں کہ خدا عالم غیب ہے اگر ان کا انجام اچھا نہ ہوتا تو ہرگز ان کی تعریف نہ فرماتا انس ے اپنی رضامندی نہ ظاہر کرتا باقی رہے وہ بعض بعض صہابہ جو مبتلائے فتن ہوئے ان کے فضائل کے ہم معتقد نہیں ہیں مگر صرف باس ادب صحبت سرور انبیاء ﷺ ان کا سب و شتم جائز نہیں سمجھتے) ہیں اور کہتے تھے کہ وہ برا آدمی تھا اس وجہ ے کہ اسلام میں اس سے بہت سے ناشائستہ کام ہو لیے منجملہ اس کے وہ جو مورخین اور محدثین نے نقل کیا ہے ہ اس نے عبدالرحمن اور قثم کو جو دونوں عبید اللہ بن عباس بن عبدالمطلب کے بیٹے تھے ان کو مان کے سامنے ذبح کر دیا اور یہد ونوں بچے کم سن تھے۔ حضرت معاویہ نے انھیں حجاز اور یمن کی طرف بھیجا تھا تاکہ شیعہ (٭منافقوںکا ایک گروہ تھا جو اپنے کو شیعہ علی کہتا تھا یہ انھیں باغیوں کا گروہ تھا جنھوں نے حضرت عچمان کو شہید کیا اور طرح طرح کے فتنے برپا کئے انھیں کا قتل معاویہ کو منظور نہ تھا نہ یہ ظلم و ستم جو بسر نے حضرت عبید اللہ کے معصوم بچوں پر سننے سے مارے دل آج کانپتے ہیں ان للہ وانا الیہ راجعون) علی کو قتل کر دیں اور حضرت معاویہ کے لئے لوگوں سے بیعت لیں چنانچہ یہ مدینہ (منورہ آئے اور وہاں بہت برے برے کام کیے اور یمن گئے اور اس وقت یمن میں عبید اللہ بن بعاس حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف سے عامل تھے عبید اللہ وہاں سے بھاگ گئے پس جب بسر وہاں پہنچے تو یہ فعل (یعنی ان صاحبزادوں کو ذبح کرنا) وہیں کیا اور بعض لوگوںکا قول ہے کہ بسر نے یہ فعل مدینہ میں کیا مگر پہلا قول زیادہ مشہور ہے ابو عمر نے کہا ہے ہ دارقطنی نے لکھاہے کہ بسر بن ارطاۃ صحابی تو ہیں مگر نبیﷺکیبعد وہ مستقیم نہیں رہے جب انھوں نے حضرت عبید اللہ کے صاحبزادوں کو قتل کیا تو ان کی والدہ عائشہ بنت عبدالمدان کو سخت صدمہ ہوا اور انھوں نے یہ چند اشعار کہے جن میں کا ایک شعر یہ ہے۔
بامن احس بینبی اللذین ہما کالدرتین تشفلی عنہا الصدف
(٭ترجمہ۔ ہے کوئی جس نے میرے ان دونوں (پیارے) بچوںکو دیکھا ہے جو مثل ان دونوں موتیوں کے تھے جو ابھی صدف سے نکلے ہوں)
یہ اشعار مشہور ہیں پھر انھیں جنون ہوگیا موسم حج میں (لوگوںکے سامنے) کھڑے ہو کر اس شعر کو پڑھتی تھیں اور اپنے چہرہ پر طمانچہ مارتی تھیں اس واقعہ کو ابن انبازی اور مبرد اور طیری اور ابن کلبی وغیرہ نے ذکر کای ہے پھر بسر مدینہ گیا مدینہ کے بھی بہت سے لوگ بھاگ گئے جن میں جابر بن عبداللہ اور ابو ایوب انصاری وغیرہ تھے وہاں بھی بر نے بہت سے لوگوں کو قتل کیا اور یمن میں قبیلہ ہمدان پر بھی تاخت کیا ور
ان کی بیبیوںکو لونڈی بنایا یہ سب سے پہلی مسلمان عورتیں تھیں جو اسلام میں لونڈی بنائی گئیں بسر نے مدینہ میں بہت سے گھر بھی گرا دیے تھے یہ حادثہ کتب تواریخ میں مذکور ہے اس میں طول دینے کی حاجت نہیں۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ بسر نے مدینہ میں بعہد خلافت حضرت معویہ وفات پائی اور بعض لوگوں کا قول ہے کہ بعد عبدالملک بن مروان ملک شام میں وفات پائی۔ آخر عمر میں سٹھیا گئے تھے (عقل زائل ہوگئی تھی) ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)