کنیت ان کی ابو رافع ہے۔ انصاری سلمی ہیں۔ بعض لوگ ان کا نام بشر کہتے ہیں۔ ان کا تذکرہ ابن مندہ نے یہاں مختصر لکھا ہے اور کہا ہے کہ ان کا صحابی ونا چابت ہے۔ان سے ان کے بیٹے رافع نے روایت کی ہے۔ ان کے نام میں اختلاف ہے ان کا تذکرہ ابو نعیم نے بھی لکھا ہے اور انھوں نے ان کے بیٹے کی روایت بواسطہ ان کے نبی ﷺ سے نقل کی ہے کہ آپنے فرمایا (قریب قیامت کے) ایک آگ ظاہر ہوگی الی آخر الحدیث ان کا تذکرہ ابو موسی نے بھی لکھا ہے اور کہا ہے کہ ابو زکریا نے اپنے دادا ابو عبداللہ بن مندہ پر استدراک کرنے کے لئے ان کا تذکرہ لکھا ہے۔ ابو موسی نے کہا ہے کہ ابو عبداللہ نے ان کا تذکرہ بشڑ اور بشیر کے نام میں ان کا تذکرہ لکھا ہے پس وہ سمجھے کہ یہ کوئی اور ہیں حالانکہ یہ سلمی بفتح سین و لام ہیں منسوب طرف بنی سلمہ کے جو انصر میں سے تھے۔ میرا خیال یہ ہیک ہ ابو زکریا نے اپنے ددا کی کتاب میں بشر کے بیان میں وہ مضمون دیکھا جس سے انھوں نے سمجھا کہ یہ انصاری ہیں اور بشیر کے بیان میں دیکھا کہ وہ سلمی ہیں اور انھیں یہ گمان ہوا کہ یہ بضم سین ہے سلیم بن منصور سے لہذا وہ سمجھے کہ بشیر انصاری کا تذکرہ ان کے داد سے رہ گیا واللہ اعلم۔ انکا تذکرہ ابو عمر نے لکھا ہے اور کہا ہے کہ بشیر سلمی اور بعض لوگ ان کو بشیر بضم بار کہتے ہیں یہ دارقطنی کابیان ہے ان سے ان کے بیٹے نے ایک حدیث روایتکی ہے ہ نبی ﷺ نے فرمایا وہ زمانہ قریب ہے کہ ایک آگ ظاہر ہوگی جس سے مقام بصری میں اونٹوںکی گردنیں روشن ہو جائے گی (یعنی وہ آگ اتنی بلند ہوگی کہ اونٹوںکی گردنوں تک اس کی روشنی پہنچے گی) وہ آگ سست رفتار اونٹ کی طرح چلے گی دن بھر چلے گی اور رات کو قیام کرے گی۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)