غدوی۔ بالضم۔ یہ بشیر بیٹے ہیں کعب کے۔ کنیت ان کی ابو ایوب عدوی بصری۔ ابو موسی نے لکھا ہے کہ عبدان نے بیان کیا کہ م نے ان کو صحابہ میں اس وجہسے بیان کیا کہ ہمارے بعض مشائخ اور اساتذہ نے ان کا ذکر کیا ہے مگر ہمیں ان کا صحابی ہونا معلوم نہیں یہ ایک شخص ہیں جنھوںنے کتابیں پڑھی ہیں۔ طائوس نے حضرت ابن عباس سے رویتکی ہے کہ انھوں نے بشیر بن کعب عدوی سے کہا کہ فلاں فلاں حدیث پھر پڑھو چنانچہ انوںنے پھر رھیں پھر حضرت ابن عباس نے کہا کہ اچھا فلاں فلاں حدیثیں پھر پڑھو چنانچہ انھوں نے وہ بھی پڑھ دیں ور کہا کہ خدا کی قسم مجھے یہ نہ معلوم ہوا کہ آپنے میری سب حدیثوںکو برا سمجھا اور اس کو اچھا جانا یا اس کو برا سمجھ اور اوروں کو اچھا جانا
حضرت ابن عباس نے کہا ہم رسول خدا ﷺ سے حدیثیں روایت کیا کرتے تھے جب آپ پر جھوٹ نہ جوڑا جاتا تھا مگر جب لوگوںنیہر قسم کی حدیثیں بنانا شروع کیں تو ہم نے حدیث بیان کرنا چھوڑ دی۔ (حضرت بشیر عدوی کو حدیثیں بہت یاد تھیں اور وہ حدیث کیر ویت زیدہ کرتے تھے لہذا ان کی کثرت روایت ظاہر کرنیکے لئے پہلے حضرت ابن عبس نے ان سے حدیچیں پڑھوائیں بعد اس کے بخیال احتیاط اپنیکم رویات کنر کے حال ان سے بیان کیا تاکہ وہ بھی متنبہ ہو جائین ور حدیث کیر وایت میں احتیاط کریں) ابن مندہ نے کہا ہے کہ طلق ابن حبیب بے بشیر بن کعب سے رویت کی ہے کہ انھوںنے کہا دو نوجوان لڑکے رسول خدا ھ کے حضور میں آئے اور انھوںنے عرض کیا کہ یارسول اللہ کیا ہم اس حالت میں عمل (٭یہ دونوں نوجوان دراصل مسئلہ جبرو قدر کے شبہ میں گرفتار تھے کہ اگر سب کچھ مقدر ہوچکا ہے تو پھر عمل کا کیا نتیجہ جو کچھ مقدر ہوچکا ہے وہ ضرور ہوگا خواہ یسے ہی عمل یوں نہ کرین حضرت ﷺ نے ان کا شبہ اس واح دفع فرمایا کہ عمل بھی مقدر ہوچکا ہے۔ قلم کے خش ہونے کا مطلب یہ ہے کہ احکام لکھ گئے اور قلم رکھ دیا گیا کہ اس کی سیاہی خشک ہوگئی۔ مسئلہ جبر و قدر کے متعلق ہماری شریعت مقدسہ کا یہ فیصلہ ہے کہ بندے کسی کام کر کرنے پر خدا کی طرف سے نہ مجبور ہیں ورنہ ثواب و عذاب عبث ہوگا اور نہ کامل خودمختار ہیں ورنہ حق تعالی کا فاعل حقیقی اور حاکم علی الاطلاق ہونا باطل ہوگا معاذ اللہ منہا بلکہ ہر بندہ کچھ مجبور اور کچھ مختار ہے یہ مسئلہ چونکہ عوام بلکہ متوسطین کی فہم میں نہیں آسکتا اس لئے ہمارے رسول کریم ﷺ نے ازراہ شفقت اپنی امت کو اس مسئلے میں بحث کرنے سے منع فرمایا ہے) کرتے ہیں کہ قلم خشک ہوچکے اور احکامجاری ہوگئے۔ ان دونوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ پھر عمل کا کیا نتیجہ حضرت نے فرمایا کہ ہر شخص کو اس کے عمل کی توفیق ملتی ہے تو ان لوگوںنے عرض کیا کہ ہاں اب ہم کوشش کریں گے۔ ابو موسی کہتے ہیں کہ یہ دونوں حدیثیں اس بات کا وہم دلاتی ہیں کہ بشیر صحابی ہیں حالانکہ یہ صحابی نہیں ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ ان کے صہابی نہ ہونے میں شک نہیں یہ صرف حضرت ابو ذر و ابو الدرداء و ابوہریرہ (رضی اللہ عنہم) سے رویت کرتے ہیں ان سے طلق اور عبداللہ بن بریرہ اور حلاء بن زیاد روایت کرتے ہیں۔ انکا تذکرہ ابو موسی نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)