ابن عقربہ جہنی۔ بعض لوگ انھیں کنانی کہتے ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں ان کا نام بشیر ہے۔ کنیت ان کی ابو الیمان ہے۔ ابوعمر نے کہا ہے کہ بشیر زیادہ مشہور ہے۔ فلسطین میں جا کے رہے تھے ان کے والدہ عقربہ رسول خدا ﷺ کے ہمراہ آپ کے کسی جہاد میں شہید ہوئے عبداللہ بن عوف کنانی نے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا میں یزید بن عبدالملک کے پاس موجود تھا جب اسے عمرو بن سعید بن عاص کو قتل کرنے کے بعد بشیر بن عقربہ سے کہا ہ اے ابو الیمان مجھے اس وقت تمہارے (٭عمرو بن سعد کو چونکہ اس نے قتل کیا تھا اس سبب سے لوگوں میں سخت سوزش تھی اس سوزش کے فرو کرنے کے لئے چاہتا تھا ہ حضرت بشیر سے کچھ بیان کرائے مگر وہ ری راستبازی کہ انھوں نے صاف انکار کر دیا کہ میں لوگوں کے دکھانے سنانے کو خطبہ نہ پڑھوں گا) کلام کی ضرورت ہے لہذا تم کھڑِ ہو جائو اور کچھ کلام کرو انھوں نے کہا کہ میں نے رسول خدا ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص لوگوں کے دکھانے سنانے کو خطبہ پڑھے اللہ س کے ساھ بھی دکھانے سنانے کا معاملہ کرے گا۔
میں کہتا ہوں کہ ابو نعیم نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے اور یزید بن عبدالملک کا نام لیا ہے حالانکہ یہ واقعہ عبدالملک بن مروان کا ہے کیوں کہ اسی نے عرہ بن سعید بن عاص کو قتل کیا تھا پھر دوسری سند سے ابو نعیم اور ابو عمر نے ان کا نام صحیح لکھا ہے۔ہمیں ابو یاسربن ابی حبہ نے اپنی سند سے عبداللہ بنب احمد تک خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں سعید بن منصور نے خبر دی وہ کہتے تھے کہ میرے والد نے عبداللہ سے روایت کی وہ ہتے تھے ہم سے حجر بن حاث غرمانی نے جو اہل رملہ سے تھے عبداللہ کنانی سے نقل کر کے بیان کیا وہ عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے رملہ کے حاکمت ھے وہ عبدالملک بن مروان کے پاس موجود تھے جب اسے بشیر بن عقربہ سے عمرو بن سعید کو قتل کر کے کہا کہ اے ابو الیمان آج مجھے تمہارے کلام کی ضرورت ہے لہذا تم کھڑِ ہو کر کچھ کلام کرو انھوں نے کہا کہ میں نے رسول کدا ھ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ جو شخص دکھانے سنانے کی غرض سے خطبہ ڑھے گا اللہ اس کے ساھ بھی دکھانے سنانے کا معاملہ کرے گا۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)