سیدنا) بشیر (رضی اللہ عنہ)
سیدنا) بشیر (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن فدیک۔ ابن مندہ اور ابو نعیم نے کہا ہے کہ انھوںنے نبی ﷺ کو صرف (٭یہ بعض لوگوںکے سبکے موافق ہے جو صرف نبی ﷺ کا دیکھ لینا صحابی ہونیکے لئے ناکفای سمجھتے ہیں بلکہ س میں یہ شرط لگاتے ہیں کہ اس نے نبی ﷺ سے روایت بھی کی ہے) دیکھا ہے اور ان کے والد صہابی ہیں۔ ابن مندہ نے بشیر بن فدیک کو بشیر حارثیکے علاوہ لکھاہے جن کا ذکر اوپر ہوا۔ ابو نعیم نے بشیر بن فدیک کے تذکرہ میں اوزاعی کی وہ حدیث بھی لکھی ہے جو انھوں نے زہری سے اور انھوںنے صالح بن بشیر بن فدیک سے رویت کی ہے کہ ان کے دادا دیک نبی ﷺکے حضور میں حاضر ہوئے اور عرض یا کہ یارسول اللہ (میں نے اب تک ہجرت نہیں کی اور) لوگ کہتے ہیں کہ جو شخص ہجرت نہ کرے وہ نجات
نہ پائے گا آپ نے فرمایا اے فدیک نماز پڑھو اور زکوۃ دو اور بری باتووں سے الگ رہو اور تم اپنیق وم کے ملک میں جہاں چاہے رہو (ہجرت کی کچھ ضرورت نہیں) اس حدیث کو اوزاعی نے ایک دوسری سندسے صالح بن بشیربن فدیک سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے کہا فدیک نبی ﷺ کے حضور یں حاضر ہوئے الخ ابن مندہ اور ابو نعیم دونوں نے ان کے تذکرہ میں اس حدیث کو لکھا ہے۔ ابو نعیم نے اس حدیث کو لکھ کر اتنی بات اور زیادہ لکھیہے کہ اس حدیث کو عبداللہ بن عبدالجبار خبائری نے حارث بن عبیدہ سے انھوںنے زبیدی سے انھوں نے زہری سے انوں نے صالح بن بشیر کعبی سے رویت کیا ہے بشیر کی کنیت ابو عصام تھی وہ بنی حارث کے ایک شخص تھے نام ان کا اکبر تھا نبی ﷺ نے ان کا نام بشیر رکھا ابو نعیم نے یہاں وہ حدیث بھی لکھ دی ہے جو عصام نے اپنے والد سے رویاتکی ہے ہ انھوںنے کہا رسول خدا ھ کے حضور میں گیا آپنے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا کیا نام ہے میں نے عرض کیا کہ اکبر فرمایا کہ تمہارا نام بشیر ہے یہ حدیث بشیر حارچی کے بیان میں گذر چکی ہے ابو نعیم نے عبداللہ بن عبدالجبار کے کہنے سے دونوںکو ایک سمجھ لیا حالانکہ عبدالجبار نے یہ لکھا ہیک ہ انوں نے نبیﷺ کو صرف دیکھا اور ان کے والد صحابی ہیں پھر آخر میں لکھاہے کہ یہ رسول خدا ھ کیپاس ئے اور حضرتنے ان کا نام بدلا پس جو شخص کہتاہے کہ انھوںنے رسول خداﷺ کو صرف دیکھا ہے (کوئی روایت آپ سے نہیں کی) اس کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صغیر السن (٭رویت نہ کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ وہ صغیر السن تھے ممکن ہے کہ رویات نہ کرنے کے اور کچھ اسباب ہوں) تھے اور وفد ب کے حضور ین حاضر ہونا ان کے کبیر السن ہونے پر دلالت کرتا ہے خصوصا اس حالت میں کہ بعض احدیث میں س طرح وارد ہوا ہے کہ مجھے میری قوم نے اپنے اسلام کی خبر حضور نبوی میں پہنچانے کے لئے بھیجا تھا کیوں کہ یہ فعل تو اسی شخص کا ہوسکتاہے جو بالغ ہو اور قومکا سردار ہو نہ اس شخص کا جو کمسن ہو۔ ابن مندہ نے ان دونوںکو علیحدہ علیحدہ ذکر کیا ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا۔ بشیر بن فدیک کے تذکرہ میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو ان کے صحابی ہونے پر دلالت کرے کیوں کہ سب روایتوں کا دارومدار صالح بن بشیر پر ہے کوئی راوی کہتا ہے کہ ان کے دادا فدیک نبی ﷺ کے حضور میں حاضر ہوئے تھے پس ان سب رویتوں سے معلوم ہوا کہ بشیر صرف روایت کرتے ہیں نہ یہ کہ وہ کود صحابی ہوں۔ امیر ابو نصر نے بھی ابن مندہ کی موافقت کی ہے اور ان دونوں کو علًہدہ لکھا ہے اور کہا ہے کہ بشیر حارثی کانام اکبر تھا نبی ﷺنے ان کا نام بشیر رکھا انس ے عصام نے روایتکی ہیمگر حدیث سے یہمعلوم ہوتا ہے کہ ان کے والد صحابی ہیں۔ بغوی نے ان کا تذکرہ صحابہ میں یا ہے فقط اور ابو عمر نے بشیر بن فدیک کاذکر ہی نہیںکیا صرف بشیر حارثیکا تذکرہ لکھاہے اور نبی ﷺ کے حضور ین ان کا حاضر ہونا بیان کیا ہے اور یہ کہ حضرت نے ان کا نام بدلا پس وہ اس اشتباہ سے بچ گئے۔واللہ اعلم۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)