(سیدنا) بلال (رضی اللہ عنہ)
(سیدنا) بلال (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
موذن رسول خدا و عاشق ج روے ﷺ)
ابن رباح۔ کنیت ان کی عبدالکریم اور بعض لوگ کہتے ہیں ابو عبداللہ اور بعض لوگ کہتے ہیں ابو عمرو ان کی والدہ کا نام حمامہ ہے۔ مکہ کے مولدین (٭مولدین ان لوگوںکو کہتے ہیں جو خالص عرب نہ ہوں) سے ہیں نبی جمح کے غلام تھے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہس سراۃ کے مولدین میں سے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آزاد کئے ہوئے ہیں انھوں نے پانچ اوقیہ میں انھیں مول لیا تھا اور بع لوگ کہتے ہیں سات اوقیہ میں اور بعض لوگون کا بیان ہے کہ نو اوقیہ میں اور مول لے کر محص اللہ عزوجل کی خوشنودی کے لئے ان کو آزاد کر دیا تھا۔
رسول خدا ھ کے موذن اور خزانچی تھے۔ بدر میں اور تمام مشاہد میں شریک ہوئے۔ اسلامکی طرف سبقت کرنے والوں میں تھے اور ان لوگوں میں تھے جنھیں اللہ عزوجل کی راہ میں ( کفار کی طرف سے) سخت تکلیف دی جاتی تھی اور یہ اس تکلیف پر صبر کرت تھے۔ ابوجہل انھیں منہ کے بل دھوپ میں لٹاتا تھا اور چکی کا پاٹ ان کے اوپر رکھ دیتا تھا یہاں تک کہ دھوپ انھیں بھون دیتی تھی اور وہ ان سے کہتا تھا کہ محمد کے پروردگار کا انکار کر دو مگر یہ کہتے تھے کہ احد احد
ایک مرتبہ انھیں ایسی ہی تکلیف دی جارہی تھی کہ ورقہ بن نوفل (٭ورقہ بن نوفل زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہوگئے تھے اور انجیل کا ترجمہ سرہانی سے عربی میں کیا کرتے تھے اعلی درجہ کے موحد تھے) کا گذر ہوا تو انھوں نے کہا کہ اے بلال احد احد (کہے جائو) خدا کی قسم اگر اس حالت میں مر جائو گے تو ہم تمہاری قبر کو (بارگاہ الہی میں۹ وسیلہ رحمت بنائیں گے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ نبی جمح کے غلام تھے اور امیہ بن خلف انھیں تکلیف دیتا تھا اور پے در پے انھیں عذاب کرتا تھا پس اللہ سبحانہ و تعالی نے ایسا کیا کہ بلال ہی نے بدر میں اس کو قتل کر دیا۔ سعید بن مسیب بلال کا ذکر کر کے کہتے تھے کہ وہ اپنے دین پربڑے حریص تھے انھیں سخت سخت تکلیفیں دی جاتی تھیں جب مشرک لوگ ان کو اپنے پاس بلاتے تھے تو یہ اللہ اللہ کہتے تھے۔ سعید بن مسیب کہتے تھے کہ پھر نبی ﷺ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہس ے ملے اور فرمایا کہ اگر ہمارے پاس کچھ ہوتا تو ہم بلال کو مول لے لیتے حضرت ابوبکر رضیاللہ عنہ عباس بن عبدالمطلب کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ بلال کو ہمارے لئے خرید دو چنانچہ عباس گئے اور بلال کی مالکہ سے کہا کہ کیا تم اس غلام کو بیچو گی قبل اس کے کہ اس کی بھلائی جاتی رہے اس نے کہا کہ اس غلام کو تم کیا کرو گے یہ خبیث ہے اور ایسا ہے اور ایسا ہے غرض اس نے ٹال دیا پھر (دوبارہ) عباس اس سے ملے اور اسی قسم کی گفتگو کی غرض انھوںنے اس سے بلال کو مول لے لیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا بعض لوگوں کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انھیں اس حال میں مول لیا تھا کہ وہ پتھر کے نیچے دبے ہوئے تھے اور انھیں تکلیف دی جارہی تھی۔ رسول خدا ﷺ نے بلال کے اور ابو عبیدہ بن جراح کے درمیان میں مواخات کرا دی تھی۔ بلال رسول خدا ﷺ کی حیات بھر موذن رہے سفر میں بھی حضر میں بھی۔ یہی سب سے پہلے شخص ہیں جنھوںنے اسلام میں اذان دی۔ ہمیں لعیش بن صدقہ بن علی فرابی فقیہ شافعی نے اپنی سند سے احمد بن شعیب تک خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے محمد بن معدان بن عیسی نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں حسن بن اعیس نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمس ے زبیر نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے اعمشل نے ابراہیم سے انھوںنے اسود سے انھوں نے حضرت بلال سے نقل کر کے بیان کیا کہ وہ کہتے تھے اذانکے آخری الفاظ یہ ہیں اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ۔
پھر جب رسول خدا ھ کی وفات ہوگئی تو انھوں نے چاہا کہ ملک شام کی طرف چلے جائیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ نہیں تم میرے پاس رہو انھوں نے کہا کہ اگر آپ نے مجھے اپنے نفس کے لئے آزاد کیا ہے تو مجھے روک لیجئے اور اگر اپ نے مجھے اللہ عزوجل کے لئے آزاد کیا ہے تو مجھے چھوڑ دیجئے کہ میں اللہ عزوجل کی طرف ٭اللہ کی طرف جانے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے مقام پر چلے جائیں جہاں اطمیںان عبادت کا موقع ملے مدینہ میں سرور عالم ﷺ کے مقامات خالی دیکھ کر ان کو سخت بے چینی رہتی تھی) چلا جائوں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا اچھا جائو یہ شام کی طرف چلے گئے اور وہیں رہے یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی۔ اور بعض لوگوں کا بیان ہے کہ انھوں نے نبی ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وقت میں بھی اذان دی ہمیں ابو محمد بن ابوالقاسم دمشقی نے اجازۃ خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ہمارے چچا نے خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے ابو طالب بن بوسف نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیںابو محمد جوہری نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں محمد بن عباس نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں احمد بن معروف نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں حسین بن فہم نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں محمد بن سعد نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں اسماعیل بن عبداللہ بن ابی اویس نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں عبدالرحمن بن سعد بن عمار بن سعد موذن نے خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے عبداللہ بن محمد بن عمار بن سعد نے اور عمار بن حفص بن سعد اور عمر بن حفص عمر بن سعد نے اپنے والد سے انھوں نے ان کے دادا سے نقل کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے جب رسول خدا ھ کی وفات ہوئی تو بلال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ اے خلیفہ رسول خدا ﷺ میں نے رسول خدا ھ کو یہف رماتے ہوئے سنات ھا کہ میری امت کے اعمال میں سب سے افضل جہاد فی سبیل اللہ ہے لہذا میں نے ارادہ کیا ہے کہ محض اللہ کی خوشنودی کے لئے سرحد پر رہوں یہاں تک کہ قتل ہو جائوں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے بلال میں تمہیں اللہک ی قسم دلاتا ہوں اور اپنے حق و حرمت کا واسطہ دیتا ہوں (کہ تم میرے ہی پاس رہو) کیوں کہ میں اب بوڑھا ہوا اور میری موت قریب آئی چنانچہ بلال حضرت ابوبکر صدیق رضی الہ عنہ کے پاس رہ گئے یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کیو فات ہوگئی جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی تو بلال حضرت عمر رضیاللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے وہی کہا جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہس ے کہا تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی نامنظور یا جس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نامنظور کیا تھا مگر بلال نے نہ مانا۔
بعض لوگوں کا بیان ہے کہ جب ان سے حضرت عمر نے کہا کہ تم میرے پاس رہو اور انھوں نے نہیں مانا تو حضرت عمر نے پوچھا کہ تمہیں اذان سے کون چیز مانع ہے بلال نے جوبا دیا کہ میں نے رسول خدا ﷺ کے حکم سے اذان دی یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی پھر میں نے حضرت ابوبکر کے حکم سے اذان دی کیوں کہ وہ میرے ولی نعمت تھے یہاں تک کہ ان کی بھی وفات ہوگئی اور میں رسول خدا ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سن چکا ہوں کہ اے بلال کوئی عبادت جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر نہیں ہے (لہذا اب میں جہاد کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں) چنانچہ بعزم جہاد شامکی طرف چلے گئے۔ جب حضرت عمر (فتح بیت المقدس کے لئے) شام تشریف لے گئے تو ان کے کہنے سے وہاں ایک مرتبہ حضرت بلال نے اذان دی (راوی کہتا ہے کہ) اس دن سے زیادہ ہم نے رونے والے نہیں دیکھے۔ ان سے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت علی اور ابن مسعود اور عبداللہ بن عمر اور عکب بن عجرہ اور اسامہ بن زید اور جابر اور ابو سعید خدری اور براء بن عازب نے رویت کی ہے (یہ سب صحابی ہیں) اور ان سے مدینہ اور شام کے بڑِ بڑے تابعین کی ایک جماعت نے بھی روایت کی ہے۔ حضرت ابو الدرداء نے روایت کی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب جب فتح بیت المقدس کے بعد مقام جابیہ میں گئے تو ان سے بلال نے درخواست کی کہ انھیں شام میں رہنے دیں چنانچہ انھوںنے منظور کر لیا بلال نے کہا اور میرے بھائی ابو رویحہ کو (بھی اجازت دے دیجئے) جن کے اور میرے درمیان میں رسول خدا ھ نے مواخات کرا دی تھی حضرت عمر نے فرمایا اچھا تمہارے بھائی کو بھی مں نے اجازت دی چنانچہ یہ دونوں خولان کے ایک محلہ میں فروکش ہوئے حضرت بلال نے ان سے کہا کہ ہم تمہارے پاس نکاح کی درخواست کرنے کو آئے ہیں ہم پلے کافر تھے اب اللہ نے ہمیں ہدایت کر دی ہم غلامت ھے اللہ نے ہمیں آزاد کر دیا ہم فقیر تھے اب اللہ نے ہمیں مالدار کر دیا پ اگر تم اپنی (لڑکیوں کا) نکاح ہمارے ساتھ کر دو تو الحمد للہ اور اگر ہماری درخواست نامنظور کرو تو لاحول ولا قوۃ الا باللہ ان لوگوں نے ان کے ساتھ نکاح کر دیا۔ بعد اس کے بلال نے نبی ﷺ کو خوابم یں دیکھا کہ آپ فرماتے ہیں اے بلال کیا ابھی وہ وقت نہیں آیاکہ تم ہماری زیارت کے لئے آئو صبح کو حضرت بلال نہایت رنج کی حالت میں میں بیدار ہوئے اور مدینہ کی طرف چل دیئے اور نبی ﷺ کی قبر اقدس پر حاضر ہوئے اور قبر اطہر پر منہ رکھ کر رونے لگے اتنے میں حضرت حسن اور حسین آگئے حضرت بلال نے ان کو لپٹا لیا اور انھیں پیار کرنے لگے حضرات حسنین نے کہا ہ ہم چاہتے ہیں ہ آج صبح کی اذان تم دو چنانچہ (یہ اذان دینے کے لئے) مسجد کی چھت پر چڑھے جب انھوںنے کہا کہ اللہ اکبر اللہ اکبر تو سارا مدینہ ہل گیا پھر جب انھوں نے کہا کہ اشھد ان لا الہ الا اللہ تو اور زیادہ جنبش ہوئی پھر جب انھوںنے کہا اشھد ان محمد رسول اللہ تو عورتیں اپنر پردوں سے باہر آگئیں اس دن سے زیادہ رونے والے مرد اور رونے والی عورتیں کبھی نہیں دیکھی گئیں۔
ہمیں ابو جعفر بن احمد بن علی نے اور اسماعیل بن عبید اللہ بن علی نے اور ابراہیم بن محمد بن مہران نے اپنی سند سے ابو عیسی ترمذی سے نقل کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے ہم سے حسین بن حریث نے بیان کای وہ کہتے تھے ہمیں علی بن حسین بن واقد نے خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں عبداللہ بن بریدہ نے اپنے والد سے نقل کر کے خبر دی وہ کہتے تھے کہ ایک دن صبح کو رسول خدا ھ نے بلال کو بلایا اور فرمایا کہ اے بلال کیا وجہ ہے کہ تم جنت میں مجھ سے آگے (٭یہ آگے رہنا رسول خدا ھ پر ان کی فضیلت کو ثابت نہیں کرسکتا خدام لوگ اپنے آقا کے آگے بھی چلتے ہیں پیچھے بھی چلتے ہیں مگر ہاں آگے رہنا ان کے اختصاص و تقرب کی دلیل ہے) رہتے ہو جب کبھیمیں جنت میں داخل ہوا تو میں نے تمہارے چلنے کی آواز اپنے آگے سنی۔ہمیں عمر بن محمد بن معمر وغیرہس ے نقل کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے ہمیں ہبۃ اللہ بن عبدالواحد منشی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو طالب محمد بن غیلان نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں محمد بن عبداللہ بن ابراہیم نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیںابو منصور بن سلیمان بن محمد بن فضل جحلی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہیںابن ابی عمر نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں سفیان نے سلیمان تیمی سے انھوں نے ابو عثمان ہندی سے نقل کر ک خبر دی کہ بلال نے نبی ﷺ سے اس کی وجہ بیان کی کہ آپ آمیں میں مجھ سے آگے نہیں (٭یعنی میں آپ کی آمیں کے ساتھ ہی آمیں کہتا ہوں اس کی بہت بڑی فضیلت حدیث میں آئی ہے دوسری صحیح احادیث میں وارد ہوا ہے کہ حضرت بلال نے اس کی وجہ یہ عرض کی کہ میں ہر وضو کے بعد دو رکعت نماز پڑھ لیا کرتا ہوں) ہوتے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ابوبکر ہمارے سردار تھے اور انھوںنے ہمارے سردار یعنی بلال کو آزاد کیا۔
مجاہد نے بیان کیا ہے کہ سب سے پہلے جن لوگوںنے مکہ میں اسلام ظاہر کیا سات آدمی تھے رسول خدا ﷺ ابوبکر خباب صہیب عمار بلال سمیہ والدہ عمار۔ پس بلال کو تو خدا کی راہ میں بہت ذلت حاصل ہوئی ان کی قوم نے ان کی تذلیل کی ان کو پکڑا اور ان کی مشکیں کس دین اور ھال کی بنی ہوئی ایک رسی ان کی گردن میں ڈالی اور اپنے لرکون کے حوالہ کر دیا لڑکے ان کے ساتھ برا برتائو کرتے تھے یہاں تک کہ جب تھک جاتے تو ان کو چھوڑ دیتے اور باقی لوگوں کے حالات ان کے ناموں میں آئیں گے شبابہ نے ایوب بن سیار سے انھوںنے محمد بن منکدر سے انھوں نے جابر بن عبداللہ سے انھوںنے ابوبکر صدیق سے انھوںنے بلال سے روایت کی ہے ہ وہ کہتے تھے کہ میں نے ایک سخت سردی والے دن صبح کی اذان دی پس رسول خدا ﷺ باہر تشیر ف لائے آپ نے مسجد میں کسی کو نہ دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ اور لوگ کہاں ہیں میں نے عرض کیا کہ سردی کے سبب سے نہیں آئے آپ نے فرمایا کہ اے اللہ سردی کو ان لوگوں سے دور کر دے پس (فورا ہی) میں نے دیکھا کہ وہ لوگ نماز کے لئے چلے آرہے ہیں۔ اس حدیث کو حمانی وغیرہ نے ایوب سے نقل کیا ہے اور انھوں نیاببوکر ذکر نہیں کیا۔ محمد بن سعد کاتب واقدی نے کہا ہے کہ بلال کی وفات سن۲۰ھ میں دمشق میں ہوئی اور باب الصغیر میں مدفون ہوئے اس وقت عمر ان کی ۶۰ سال سے کچھ اوپر تھے۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ سن۱۷ھ یا سن۱۸ھ میں ان کی وفات ہوئی۔ اور علی بن عبدالرحمن نے بیان کیا ہے کہ حضرت بلال کی وفات حلب میں ہوئی اور باب الاربعین میں مدفون ہوئے۔ حضرت بلال کا رنگ تیز گندمی تھا نحیف الحبشہ اور طویل القامۃ تھے رخساروں پر گوشت کم تھا۔ ابو عمرو نے لکھا ہے کہ ایک ان کے بھائی تھے ان کا نام خالد تھا اور ایک بہن تھیں جن کا نام عقرہ تھا وہ آزاد کی ہوئی عمر بن عبداللہ مولی عقرہ محدث کی تھیں۔ حضرت بلال نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)