سیدنا) براء (رضی اللہ عنہ)
سیدنا) براء (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن معرور بن صخر بن خنسا بن سنان بن عبید بن عدی بن غنم بن کعب بن سلمہ بن سعد بن علی بن اسد بن ساروہ بن تزید بن جشم بن خزرج انصاری خزرجی سلمی کنیت ان کی ابو بشر والدہ ان کی اسباب بنت نعمان بن امرء القیس بن زید بن عبدالاشہل ہیں جو حضرت سعد بن معاذ کی پھوپھی تھیں۔ یہ براء فقیائے صحابہ میں تھے بنی سلمہ کے نقیب تھے بقول بعض عقبہ اولی کی شب میں سب سے پہلے جس نے رسول خدا ﷺ
سے بیعت کی وہ یہی تے اور سب سے پہلے جس نے کعبہ کی طرف (٭یعنی قبل از تحویل قبلہ انھوں نے کعبہ کی طرف نماز ڑھنا شروع کر دی تھی جیسا کہ آگے آئے گا) منہ پھیرا وہہ یہی تھے۔ انھوں نے (٭معلوم ہوا کہ اس وقت تک میراث کی آیت نازل نہ ہوئی تھی اور وصیت کا حکم تھا) اپنے تہائی مال کی وصیت کی تھی۔ شروع اسلام میں رسول خا ﷺ کے زمانے میں وفات پائی۔ کعب بن مالک نے جو ان لوگوں میں تھے جنھوں نے رسول خدا ﷺ سے شب عقبہ میں بیعت کی) روایت کی ہے کہ ہم اپنی قوم کے مشرکین کے ہمراہ حج کے لئے نکلے ور ہم لوگ نماز پڑھا کرتے تھ اور دینی مسائل سے واقف تھے ہمارے ہمراہ براء بن معرور بھی تھے وہ ہم سب میں بڑے اور ہمارے سردار تھے براء نے ہمس ے کہا کہ اے لوگو میرے دل میں یہ آتا ہے کہ میں اس عمارت یعنی کعبہ کو (نماز میں) پس پٹ نہ کروں اور اسی کی طرف (منہ کر کے) نماز ڑھوں کعب بن مالک کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے کہا واللہ ہمیں یہی خبر پہنچی ہے کہ ہمارے نبی ﷺ شام (یعنی بیت المقدس) ہی کی طرف نماز ڑھتے ہیں ور ہم نہیں چاہتے کہ (کسی بات میں) انکے خلاف کریں براء نے کہا کہ میں تو کعبہ ہی کی طرف نماز پڑھوں گا ہم لوگوں ین کہا کہ ہم تو ایسا نہ کرین گے کعب بن مالک کہتے ہیں کہ جب نماز کا وقت آتا تو ہم لوگ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے اور براء کعبہ کی طرف نما زڑھتے یہاں تک کہ ہم لوگ مکہ پہنچے تو براء نے مجھ سے کہا کہ اے میرے بھتیجے ہمیں رسول خدا ﷺ کے پاس لے چلو تاکہ میں آپ سے س فعل کی نسبت دریافت کروں جو میں نے اپنے س سفر میں کیا ہے کیوںکہ خدا کی قسم میرے دل میں اس کی طرف سے تردد ہے چونکہ تم لوگ اس کے مخالف ہو کعب بن مالک کہتے ہیں کہ ہم رسول خدا ﷺ سے پوچھنے کے لئے چلے ہم آپ کو پہچانتے نہ تھے اور نہ ہم نے اس سے پہلے آپ کو دیکھا تھا کعب بن مالک کہتے ہیں ہ ہم مسجد میں داخل ہوئے اور حضرت کے پاس جاکے بیٹھ گئے براء بن معرور نے عرض کیا کہ یا نبی اللہ میں اپنے س سفر میں جو چلا اور مجھے اللہ عزوجل نے اسلامکی ہدیت کر دی ہے تو میرے دل میں یہ آیا کہ میں اس عمارت کعبہ کی طرف (نماز میں) پشت نہ کروں لہذا میں نے کعبہ ہی کی طرف نماز ڑھی مگر میرے اصہاب اس بات میں میرے مخالف ہوئے یہاں تک کہ میرے دل میں اس کی بابت شک پڑ گیا پس اے رسول خدا آپ اس میں کیا فرماتے ہیں حضرت نے فرمایا کہ تم (جب شام کی طرف نماز پڑھتے تھے تو) ٹھیک قبلہ کی طرف تھے کاش تم چند روز اس پر صبر کرتے چنانچہ وہ پھر بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے لگے کعب بن مالک کہتے ہیں کہ پھر براء نے رسول خدا ﷺ کے قبلہ کی طرف رجوع کیا اور ہم لوگوںکے ہمراہ وہ شام کی طرف نما زپڑھنے لگے ان کے گھر والے بیان کرتے ہیں ہ نہیں وہ اپنے اخیر وقت تک کعبہ ہی کی طرف نماز پڑھا کیے لیکن یہ غلط ہے ہم ان کے حال سے زیادہ واقف ہیں کعب بن مالک کہتے ہیں پھر ہم حج کے لئے چلے گئے اور رسول خدا ﷺ سے وعدہ کر گئے کہ وسط ایام تشریق میں مقام عقبہ پر حاضر ہو جائیں گے چنانچہ جب ہم حج سے فارغ ہوئے تو شب کو شعب میں جمع ہو کے آپ کا انتظار کرنے لگے پس آپ تشریف لائے اور آپکے ہمراہ آپ کے چچا عباس بھی تھے کعب بن مالک کہتے ہیں کہ عباس نے گفتگو شروع کی ہم لوگوں نے عباس سے کہا کہ جو کچھ تم نے کہا وہ ہم نے سن لیا اب اے رسول خدا اپ گفتگو فرمایئے اور اپنے لئے اور اپنے پروردگار عزوجل کے ئے ہم سے عہد لے لیجئے پھر رسول خدا ﷺ نے گفتگو شڑوع کی آپ نے قرآن کی تلاوت فرمائی اور اللہ عزوجل کی طرف بلایا اور اسلام کی ترغیب دی اور فرمایا کہ میں تم سے س شرط پر بیعت لیت ہوں ہ تم جن باتوں سے اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہو ان سے میری بھی حفاظت کرنا کعب بن مالک کہتے ہیں کہ براء بن
معرور نے حضرت کا ہاتھ کڑ لیا اور کہا کہ قسم اس کی جس نے حق کے ساتھ آپ کو بھیجا کہ ہم ضرور ضرور ان باتوں سے آپ کی بھی محافظت کریں گے جنس ے اپنے بال بچوں کی حفاطت کرتے ہیں لہذا اے رسول خدا ہم آپس ے بیعت کرتے ہیں اور خدا کی قسم ہم لوگ بڑی جمعیت و اتفاق والے ہیں یہ بات ہم میں باپ دادا کے وقت سے چلی آرہی ہے براء رسول خدا ﷺ سے گفتگو کر ہی تھے کہ درمیان میں ابو الہیثم بن یتہان جو بنی عبد الاشہل کے حلیف تھے بولنے لگے پس براء پہلے وہ شخص ہیں جس نے رسول خدا ﷺ کے دست مبارک پر (اس وقت) بیعت کی ان کے بعد پھر اور لوگوں نے یکیبد دیگرے بیعت شروع کی براء کی وفات ماہ صفر میں رسول خدا ﷺ کی تشریف آوری سے ایک ماہ پیشتر ہوئی پھر جب رسول خدا ﷺ ہجرت کر کے تشریف لائے تو معہ اپنے صہابہ کے ان کی قبر پر تشریف لے گئے اور قبر پر آپ نے تکبیر کہہ کے نماز ڑھی اس نماز میں آپنے چار مرتبہ تکبیر کہی۔ جب ان کی موت کا وقت قریب ہوا تو انھوں نے ویت کی کہ قبر میں قبلہ رو رکھ کر دفن کیے جائیں چنانچہ لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)