سیدنا) بریدہ (رضی اللہ عنہ)
سیدنا) بریدہ (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن حصیب بن عبداللہ بن حارث بن سلامان بن اسلم بن افصی بن حارثہ بن عمرو بن عامر اسلمی۔ کنیت ان کی ابو عبداللہ ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں ابو سہل اور بعض لوگ کہتے ہیں ابو الحصیب اور بعض لوگ کہتے ہیں ابو ساسان مگر مشہور ابو عبد اللہ ہے۔ ہجرت کرتے وقت جب رسول خدا ﷺ کا گذر انک ی طرف ہوا تو یہ اور ان کے ساتھ والے جو قریب اسی گھر کے تھے اسلام لے آئے رسول خدا ﷺ نے عشاء کی نماز انھیں کے یہاں پڑھی اور ان لوگوں نے آپ کی اقتدا کی یہ اپنی ہی قوم کے پاس مقیم رہے وار بعد احد کے رسول خدا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حدیبیہ میں اور بیعۃ الرضوان میں جو درخت کے نیچے ہوئی تھی شریک ہوئے مدینہ کے رہنے والے تھے مگر بعد اس کے بصرہ چلے گئے تھے اور وہاں ایک گھر بنا لیا تھا پھر وہاں سے جہاد کے لئے خراسان گئے پھر مرومیں قیام کر دیا یہاں تک کہ وہیں وفات پائی اور وہیں مدون ہوئے انکیا ولاد بھی وہیں رہی۔ ہمیں ابو البرکات حسن ابن محمد بن ہبۃ اللہ شافعی دمشقی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو العشائر محمد بن خلیل بن فارس قیسی نے خبر دیوہ کہتے تھے ہمیں ابو القاسم علی بن ٌہدم بن علی ابن ابی العلاء مصیصی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو محمد بن احمد بن ابی ثابت نے خبر دی وہ کہتے تھے میں یحیی بن ابی طالب نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں زید بن حباب نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابن ناجیہ خراسانی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو طیبہ عبداللہ بن مسلم نے عبداللہ بن بریدہ سے انھوں نے اپنے والد سے نقل کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تے نبیﷺ نے فرمایامیرے اصہاب میں سے جو شخص جس سرزمیں میں مرے گا وہ وہاں کے لوگوںکے لئے قیامت کے دن پیشوا اور نور ہوگا اور عبداللہ بن بریدہ نے اپنے والد سے یہ بھی روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے ان سے اور حکم بن عمرو غفاری نے فرمایا کہ تم دونوں اہل مشرق کے لئے چشم (و چراغ) ہو چنانچہ یہ دونوں مرو (جو مدینہ ے مشرق کی جانب ہے) گئے اور وہیں دونوں نے وفات پائی۔ عبداللہ بن بریدہ نے اپنے والد سے یہ بھی روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ فال (٭فال کہتے ہیں یس بات کو سن کر اپنے لئے اچھا نتیجہ نکالنے کو حضرت کے فال لینے کا یہی طریقہ تھا نہ ج یسا کہ آج کل قرآن مجید یا دیوان حافظ کو کھول کر لوگ دیکھتے ہیں) لیتے تھے ور گون بد نہ لیتے تھے مثلا جب بریدہ اپنے گھر والوںکے ستھ جو قبیلہ بنی سہم کے ستر آدمی تھے نبی ﷺ کے حضور میں حاضر ہوئے تو آپنے انس ے پچھا کہ تم کس
قبیلہس ے ہو انھوں نے کہا کہ قبیلہ اسلمے آپنے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہس ے فرمایا کہ مارے لئے سلامتی ہے پھر آپ نے پوچا کہ تم کس کی اولاد میں ہو انھوں نے کہا کہ بنی سہم کی اولاد میں حضرت نے فرمایا کہ اب تمہارا حصہ نکلا۔ ہمیں ابراہیم بن محمد بن مہران نے اور ابو جعفر بن احمد وگیرہ نے اپنی اسناد سے ابو عیسی ترمذی تک خبر دی وہ کہتے تھے کہ ہم سے محمد بن حمید نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں زید بن حباب نے اور ابو ثمیلہ نے عبداللہ بن مسلم سے انھوں نے عبداللہ بن بریدہ سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کر کے خبر دی کہ انھوں نے کہا ایک شخص رسول خدا ﷺ کے پاس آیا اس کے اتھ میں لوہے کی انگوٹھی تھی آپ نے فرمایا کیا بت ہے کہ میں تیرے جسم پر دوزخیوں کا زیور دیکھ رہا ہوں اس کے بعد وہ آپ کے پاس پیتل کی انگوٹھی پہن کے آی آپ نے فرمایا کیا باتہے ہ میں تجھ میں بتوںکی بو پاتا ہوں اس کے بعد وہ آپکے پس سونیکی انگوٹھی پہن کر آیا آپنے فرمایا کیا بت ہے کہ میں تیرے جسم پر اہل جنت کا زیور دیکھتا ہوں اس شخص نے عرض کیا کہ پھر میں کسی چیز کی انگوٹھی بنائوں آپنے فرمایا چاندی کی مگر پوری ایک مثقال کی نہ ہو۔ ہمیں عبدالوہاب بن ہبۃ اللہ نے خبر دی وہ کہتے تھے میں رئیس ابو القاسم منشی نے خبر دی وہ کہتے تھے میں ابو علی حسن مذکر نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں احمد بن مالک نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابوبکر نے خبر دیوہ کہتے تھے ہمیں عبداللہ بن احمد نے خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے انھوں نے کہا مجھ سے ابی نے بیانکیا وہ کہتے تھے ہم سے روح نے علی بن سوید بن منجوف سے انھون نے عبداللہ بن بریدہ سے انھوں نے اپنے والد سے نقل کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے رسول خدا ﷺ حضرت علی رضًاللہ عنہ کو خالد بن ولید کے پاس بھیجا تاکہ مال غنیمت کا خمس لے ائیں وہ کہتے تھے کہ صبح کو حضرت علی اس حال میںجائے کہ ان کے سر سے تیل (٭معلوم ہوتا ہے کہ مال خمس میں کچھ تیل بھی ہوگا اس کو حضرت علی مرتضی نے سرمیں لگا لیا) ٹپک رہا تھا تو خالد نے بریدہ سے کہا کہ دیکھو اس شخص نے کیا کیا بریدہ کہتے تھے جب میں نبیﷺ کے پاس لوٹ کے آیا تو میں نے آپ کو علی کے اس فعل کی خبر دی یہ کہتے تھے کہ میں علی سے بغض رکھتا تھا آپنے فرمایا کہ اے بریدہ کیا تم علی سے بغض رکھتے ہو میں نے عرض یا کہ ہاں اپ نے فرمایا ان سے بغض نہ رکھا کرو اور روح کبھی یوں کہتے تھے کہ حضرت نے فرمایا ان سے محبت رکھا کرو خمس میں ان کا حصہ اس سے زیادہ ہے۔ انک ا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)