بن ثعلبہ بن عبدالعزیٰ بن حبیب بن حبہ بن ربیعہ بن سعد بن عجل بن نحیم بن سعد بن علی بن بکربن وائل رابعی بکری ثم العجلی۔بنی سہم کے حلیف تھے یہ قبیلۂ ربیعہ کے ان چارآدمیوں میں سے تھے جو اسلام لےآئےتھےان سب کاتذکرہ گزرچکاہے۔لوگوں کوراستہ بتایاکرتے تھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک لشکرزید بن حارثہ کے ہمراہ اس غرض سے روانہ فرمایاتھا کہ قریش کے قافلہ کودرمیان میں روک کر قتال شروع کردیں تو اس وقت قریش کے راہ بتانے والے یہی تھے بالآخر مسلمانوں نے اس قافلہ کو شکست دی اورفرات بن حیان کو قید کرکے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے آپ نے ان کے قتل کاحکم نہیں دیا۔پھران سے ان کا ایک انصاری حلیف ملااس سے انھوں نے کہاکہ میں مسلمان ہوں اس انصاری نے حضرت سے عرض کیا کہ یارسول اللہ فرات بن حیان کہتےہیں کہ میں مسلمان ہوگیاہوں حضرت نے فرمایاتم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کوہم ان کے ایمان کے بھروسہ پرچھوڑدیتےہیں انھیں میں سے فرات بن حیان بھی ہیں پھرآپ نے ان کو رہاکردیااوریہ برابررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جہاد کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی پھریہ مکہ چلے گئے اوروہیں سکونت اختیارکی۔ان کی اولاد بھی وہیں تھی۔جب یہ اسلام لائے توان کااسلام بہت اچھاہوااورعلم دین انھوں نے حاصل کیااورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظرمبارک میں ان کی عزت بھی خوب تھی یہاں تک کہ آپ نے ان کو یمامہ میں ایک زمین دی تھی جس کی آمدنی چارہزارروبیہ تھی۔ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ بن اثال کے پاس مسیلمہ کے قتل کے لیے بھیجاتھافرات بن حیان نےروایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حنظلہ بن ربیع تمیمی کی نسبت کہ ایسے لوگوں کی تم کو اقتداکرنی چاہیے۔ہمیں ابواحمد یعنی عبدالوہاب بن علی نے اپنی سند کے ساتھ ابوداؤد سجستانی سے نقل کرکے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے سفیان بن سعید نے ابواسحاق سے انھوں نے حارثہ بن مضرب سے انھوں نے فرات بن حیان سے روایت کر کےبیان کیاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھاتم میں سے کچھ لوگ ایسےہیں جن کوہم ان کے ایمان کے بھروسہ پرچھوڑدیتےہیں فرات بن حیان بھی انھیں میں ہیں۔ان کا تذکرتینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)