ہن اسود بن مطلب بن اسد بن عبد العزی بن قصی القرشی: ان کی والدہ کا نام فاختہ دختر عامر بن قرظہ قشیر یہ تھا اور ان کے دو اخیانی بھائی ہبیرہ اور حزن تھے اور ان کے والد کا نام ابو دہب مخزومی تھا جنابِ حزن مشہور تابعی سعید بن مسیب کے دادا تھے اور انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میسّر آئی۔
یہ ہبار وہی آدمی ہے جس نے ایک اور بدقماش کے ساتھ حضرت زینب دختر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس وقت تعاقب کیا تھا جب ان کے شوہر ابو العاص نے انہیں مدینے روانہ کیا تھا اس دوران میں ہباران پر لپکا ان کے کجادے پر حملہ کیا اور اونٹنی کو دو چار ڈنڈے لگائے چونکہ جناب زینب حاملہ تھیں زمین پر گرنے سے ان کا حمل ساقط ہوگیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس زیادتی کا علم ہوا تو فرمایا اگر ہبار تمہارے ہتھے چڑھ جائے تو اسے آگ میں ڈال دینا فرمایا نہیں اللہ کے بغیر اور کوئی ایسی سزا دینے کا مجاز نہیں ہے اس لیے اگر قابو آجائے تو قتل کردینا لیکن وہ کسی کے قابو نہ آیا آخر مکہ فتح ہوا تو اسلام لاکر تعزیر سے جان بچالے گیا۔
محمد بن جبیر بن مطعم نے اپنے والد سے انہوں نے دادا سے روایت کی کہ میں جعرانہ سے واپسی پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ ہبار بن اسود دروازے کے سامنے آکھٹرا ہوا حاضرین نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہبار بن اسود، فرمایا، ہاں میں نے دیکھ لیا ہے۔ اتنے میں ایک آدمی اس سے نمٹنے کو اٹھا۔ فرمایا بیٹھے رہو اس دوران میں ہبار حضور کے قریب آگیا اور سلام عرض کرکے کلمۂ شہادت پڑھا پھر گزارش کی، یا رسول اللہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ڈر سے گھبرا کر اِدھر اُدھر بھاگتا پھرا اور ارادہ کیا کہ کسی دوسرے ملک میں چلا جاؤں لیکن پھر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ خلق کا خیال آیا، کہ کس فراخ حوصلگی سے آپ صلی اللہ علیہ وسل نے ہماری حماقتوں اور جہالتوں سے درگزر فرمایا ہے یا رسول اللہ! ہم مشرک تھےا للہ نے ہمیں آپ کے طفیل ہدایت عطا فرمائی اور ہمیں تباہی اور بربادی سے بچالیا التجا کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری نقصیرات سے درگزر فرمائیں اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بارے میں سنا ہے اسے فی سبیل اللہ بھول جائیں۔
حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ گفتگو سنی تو فرمایا میں نے تجھے معاف کیا اور اللہ کا تجھ پر کتنا کرم ہے کہ تجھے قبول اسلام کی توفیق عطا فرمائی اور اسلام زمانۂ جاہلیت کے گناہوں سے درگزر فرماتا ہے۔
حسن بن محمد بن ہبتہ اللہ شافعی نے ابو العشائر محمد بن خلیل بن فارسی القیسی سے انہوں نے قاسم بن علی بن محمد بن علی بن ابو العلماء مصیصی سے انہوں نے ابو محمد عبد الرحمٰن بن عثمان بن ابو نصر سے انہوں نے ابو اسحاق ابراہیم بن محمد بن ابو ثابت سے انہوں نے عبد الحمید بن مہدی سے انہوں نے معانی سے انہوں نے محمد بن سلمہ سے انہوں نے فزاری سے انہوں نے عبد اللہ بن ہبار سے انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ جناب ہبار نے اپنی لڑکی کی شادی کی تو انہوں نے اس کی شادی پر ڈھول اور دف بھجوایا جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کیا حرکت ہے اُسے بتاؤ پھر فرمایا یہ نکاح ہے بدکاری تو نہیں تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔