ابن عبد المنذر بن جموح بن زید بن حرام بن کعب بن غنم بن کعب بن سلمہ انصاری خزرجی سلمی کنیت انکی ابو عمر اور بعض لوگ کہتے ہیں ابو عمرو۔ غزوہ بدر میں جب یہ شریک ہوئے تو انکی عمر تینتیس سال کی تھی۔ واقدی وغیرہ نے ایسا ہی کہا ہے اور ان سب لوگوں نے کہا ہے کہ یہ غزوہ بدر میں شریک تھے مگر ابن اسحاق نے کہا ہے کہ صحیح یہ ہیک ہ یہ بدر میں شریک تھے ان کو لوگ اہل الرای کہتے تھے۔ ہمیں عبد اللہ ن احمد بن علی بغدادی نے اپنی سند سے ابن اسحاق تک خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے یزید بن رومان نے عروہ بن زبیر سے روایت کر کے بیان کیا و نیز ابن اسحاق نے کہا ہے کہ مجھ سے زہری نے اور محمد بن یحیی بن حبان نے اور عاصم بن عمر بن قتادہ نے اور عبداللہ بن ابی بکر وگیرہ ہمارے علما نے غزوہ بدر کے واقعات بیان کیا ہے کہ رسول کدا ﷺ نے یہ ارادہ کیا کہ قریش سے پہلے پانی پر پہنچ جائیں چنانچہ جب سب سے پہلا پانی مقام بدر کا ملا اور حضرت وہاں اترے تو حباب بن منذر بن جموح نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ اس مقام میں جو اللہ نے آپ کو اتار دیا ہے کیا ہم کو اختیار نہیں ہے کہ یہاںسے آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں یا رای صائب اور لڑائی کے طریقے جس بات کو مقتضی ہوں اس کے کرنے کا ہمیں اختیار ہے رسول خدا ﷺ نے فرمایا ہاں رائے صائب اور لڑائی کے طریقے جس بات کو مقتضی ہو اس کے کرنے کا اختیار ہے پس حباب نے عرض کیا کہ یارسول اللہ اس مقامکو منزل نہ بنایئے بلکہ یہاں سے چلیے یہاں تک کہ جس قدر کنویں ہیں سب آپ کیپس پشت رہ جائیں پھر جس قدر کنوئیں ہیں سب کا پانی خشک کر دیا جائے سوا ایک کنویں کے اور اس کنویں پر ایک حوض بنوا دیجئے تاکہ ہم کافروں سے کڑیں ہمیں پانی پینے کو ملے اور ان لوگوں کو نہ ملے یہاں تک کہ اللہ تعالی ہمارے اور ان کے درمیان میں فیصلہ کر دے رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ تم نے عمدہ رائے بتائی پھر آپ نے ایسا ہی کیا۔ حباب تمام مشاہد میں رسول خدا ﷺ کے ہمراہ شریک تھے اور انھیں نے سقیفہ بنی ساعدہ میں جب حضرت ابوبکر صدیق سے لوگ بیعت کرنے لگے کہا تھا کہ میں اس معاملہ میں مثل جذیل محکک (٭جذیل محکک اس لکڑی
کو کہتے ہیں جو خارشتی اونٹ کے پاس رکھ دی جاتی ہے تاکہ وہ اس سے اپنے بدن کو کھجلائے اور عذیق کو کہتے ہیں مطلب ہے کہ میں اس معاملہ کا ایک رکن ہوں) اور عذیق مرجب کے ہوں ایک خلیفہ ہم میں سے (یعنی انصار میں سے) اور ایک خلیفہ تم میں سے (یعنی مہاجرین میں سے) ہونا چاہئے۔ حباب کی وفات حضرت عمر بن خطاب کی خلافت میں ہوئی۔ ان سے ابو الطفیل یعنی عامر بن واثلہ نے روایت کی ہے۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)