ابن مسلمہ بن مالک اکبر بن وہب بن ثعلبہ بن واملیہ بن عمرو بن شیبان بن محارب بن فہر بن مالک ابن نظر ریشی فہری کنیت ان کی ابو عبد الرحمن بعض لگ ان کو حبیب دردب اور حبیب روم بھی کہتے ہیں اس وجہ سے کہ یہ رومیوں کے یہاں بہت جایا کرتے تھے اور ان سے فائدہ اٹھاتے تھے زبیر بن بکار نے کہا ہے کہ حبیب بن مسلمہ ایک شریف شخص تھے انھوںنے نبی ﷺ سے سنا تھا انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ واقدی نے حبیب کے صحابی ہونے سے انکار کیا ہے حضرت عمر بن خطاب نے جزیرہ کی حکومت ان کے متعلق کی تھی جب کہ عیاض بن غنم کو ان سے معزول کیا پھر ارمیںیہ اور آذربیجان بھی انھیں کے متعلق کر دیا تھا بعد اس کے ان کو معزول کر دیا تھا اور بعض لوگوں کا بیان ہے کہ ان کو حضرت عمر نے حاکم نہیں بنایا بلکہ حضرت عثمان نے ان کو شام سے آذربیجان بھیجا تھا اور سلمان بن ربیعہ کو کوفہ سے ان کی مدد کے لئے ساتھ کر دیا تھا پس کوفہ کے متعلق ان دونوں میں باہم اختلف ہوا ایک نے دوسرے کو دھمکایا سلمان کو لوگوںنے قتل کی دھمکی دی تو سلمان کے اصحاب نے کہا۔
فان تقتلوا سلمان نقتل حبیبکم وان نزحلوا نحوا بن عفان نرحل
(٭ترجمہ اگر تم مسلمان کو قتل کرو گے تو ہم تمہارے حبیب کو قتل کر دیں گے اور اگر تم حضرت عثمان کے پاس جائو گے تو ہم بھی ان کے پاس جائیں گے)
یہ پہلا اختلاف تھا اور اہل عراق اور اہل شام کے درمیان میں واقع ہوا۔ اہل شام ان حبیب کی بہت تعریف کرتے ہیںا ور کہتے ہیں کہ وہ مستجاب الدعوت تھیجب حضرت عثمان کا محاصرہ کیا گیا تو حضرت معاویہ نے ایک لشکر انکی مدد کے لئے بھیجا تھا اس لشکر پر حبیب بن مسلمہ کو سردار بنایا تھا تاکہ یہ لوگ حضرت عثمان کی مدد کریں مگرجب حبیب بن مسلمہ مقام دادی قری میں پہنچے تو ان کو حضرت عثمان کی شہادت کی خبر ملی پس یہ لوٹ آئے اور حضرت معاویہ کے ساتھ انکی تمام لڑائیوں میں یعنی صفین وغیرہ میں رہے۔ انھیں حضرت معاویہ نے آرمیںیہ پر حاکم بنا کے بھیجا تھا چنانچہ وہیں سن۴۲ھ میں ان کی وفات ہوئی ان کی عمر پچاس برس کی نہ تھی بعض لوگ کہتے ہیں ان کی وفات دمشق میں ہوئی۔ ابو وہب نے مکحول سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا میں نے فقہا سے پوچھا کہ کیا حبیب صحابی تھے انھوں نے اپنی لاعلمی ظاہر کی پھر میں ان کی قوم سے پوچھا تو انھوں نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ صحابی تھے واقدی نے کہا ہے کہ جب نبی ﷺ کی وفات ہوئی تو حبیب بن مسلمہ کی عمر بارہ برس کی تھی انھوں نے نبی ﷺ کے ہمراہ کوئی جہاد نہیں کیا اور اہل شام کہتے ہیں کہ انھوں نےآپ کے ہمراہ جہاد کیا تھا ہمیں ابو الفرح بن ابی الرجاء ثقفی نے اجازۃ اپنی سند سے ابوبکر یعنی احمدبن عمرو بن ضحاک تک خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے عمرو بن عثمان نے بیان یا وہ کہت تھے ہم سے ولید بن مسلم نے سعید بن عبد العزیز سے انھوں نے سلیمان ابن موسی سے انھوں نے مکحول سے انھوں نے زیاد بن جاریہ سے انھوں نے حبیب بن مسلمہ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے (ایک جہاد میں) جاتے وقت چوتھائی مال خیرات کیا اور لوٹتے وقت پانچواں حصہ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اس الغابۃ جلد نمبر ۲)