ربیعہ خارث۔ ان کا ذکر ہشام بن عروہ کی حدیث میں ہے جو انھوں نے بواسطہ اپنے والد کے (ام المومنین) عائشہ رضی اللہ عنہا سے رویت کی ہے کہ وہ کہتی تھیں جبیب بن حارث رسول خدا ﷺ کے حضور میں آئے اور انھوںنے عرض کیا کہ یارسول اللہ میں ایک شخص ہوں کہ بے حد گناہ کرتا ہوں حضرت نے فرمایا تو اے حبیب اللہ عزوجل کے سامنے توبہ (٭توبہ کے معنی رجوع کرنا دل میں یہ ارادہ کر کے کہ اب میں اس گناہ کو کبھی نہ کروں گا اس کا اظہار بعجز والجاع جناب باری عز کے بارگاہ میں کرنا توبہ ہے۔ پھر چاہے گناہ کر لے مگر س وت ارادہ نہ ہو۔ صحابہ کے قلوب کا پاک ہونا اس رویت اور اس کیمثل اور روایتوں سے معلوم ہوتا ہے جہاں ان سے کوئی لغزش ہوئی فورا ان کو تنبہگ ہوت تھا دل چونکہ آئینہ کی طرف صاف تھے اس لئے ذرا سا بھی غبار موجب تکدر ہو جاتا تھا حضرت اغر رضی اللہ کا بھی قصہ اسی کے قریب قریب ہے کہ ان سے زنا صادر ہوگئی تھی بعد کہ جب انھیں تنبیہ ہوا تو سخت گھبرائے اور لرذا طاری حضور نبی میں آکر باصرار اپنے اوپر حد جاری کرائی اور اسی ہد کے اجراء میں انتقال فرمایا گناہ پر متنبہ ہو کر نادم ہونا ایک اعلی درجہ کا وصف ہے جو حضرات صہابہ میں برکت حضور نبوی ﷺ بدرجہ اکملت ھا۔ بقدر شرف صحبت اس صفت کے مدارج میں اختلاف تھا بعض برگزیدہ قدوسی اسیے بھی تھے جن کی طیبیعت میں قریب قریب وہ بلکہ پیدا ہوگیا تھا جس کو عصمت یا تحفظ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ان کو بالطبع گناہوںسے تنفر اور اجتناب تھا۔ رضی اللہ عنہم) کرو انھوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ میں توبہ کرتا ہوں اور پھر گناہ کرتا ہوں آپ نے فرمایا جب گناہ کرو توبہ کرو انھوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ اب بھی مجھ سے گناہ بہت ہوں گے آپ نے فرمایا اے حبیب بن حارث خدا کی بخشش تمہارے گناہوں سے بہت زیادہ ہے۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)