(سیدنا) حبیش (رضی اللہ عنہ)
(سیدنا) حبیش (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن خالد بن منقذ بن ربیعہ بن اصرم بن حنبیش بن حرام بن حبیشہ بن کعب بن عمرو بعض لوگ ان کا نسب اس طرح بیان کرتے ہیں حبیش بن خالد بن حنیف بن منقذ بن ربیعہ منقذ کا ذکر نہیں کرتے یہ خزاعی ہیں کعبی ہیں۔ کنیت ان کی ابو صخر ہے اور ابو خالد ہے ان کو بعض لوگ اشعر بھی کہتے ہیں اور ابن کلبی نے کہا ہے کہ یہ حبیش اشعر ہیں اور انھوں نے ان کے نسب میں کچھ بڑھا دیا ہے اور کہا ہے حبیش بن خالد بن حفیف بن منقذ بن اصرم اور ابن ماکولا نے بھی ان کی موافقت کی ہے مگر انھوں نے اشعر خالد کا لقب قرار دیا ہے اور ابراہیم بن سعد نے ابن اسحاق سے ان کا نام خنیس بنائے معجمہ اور نون کے ساتھ نقل کی ہے مگر پہلا ہی قول صحیح ہے کنیت ان کی ابو صخر ہے یہ بھائی ہیں ام معبد کے اور انکی حدیث کو انھیں نے روایت کیا ہے ہمیں ابو طالب لعینی محمد بن محمد نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابوبکر عینی محمد بن عبداللہ بن ابراہیم نے خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے بشر بن انس لعینی ابو الخیر نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں ابو ہشامیعنی محمد بن سلیمان بن زاید بن ثابتبن سیاکعبی ربعی خزاعی نے خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے میرے چچا ایوب بن حکم نے بیان کیا نیز ابوبکر کہتے تھے کہ ہم سے حمد بن یوسف بن عمیم بصری نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں ابو ہشام یعنی محمد بن سلیمان نے قدیدی نے خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے میرے چچا ایوب بن حکم نے حرام بن ہشام قدیدی سے انھوںنے اپنے والد ہشامبن حبی سے انھوں نے ان کے دادا حبیش بن خالد صحابی رسول خدا ﷺ سے نقل کر کے بیان کیا کہ جب نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر اور حضرت ابوبکر کے غلام عامر بن فہیرہ اور ان کے رہنما عبداللہ بن اریقط ہجرت کر کے مکہ سے چلے تو واثنائے راہ میں ان کا گذر ام معبد خزاعیہ کے دونوں خیموں پر ہوا انھوں نے کھال کے خیمہ بنا لئے تھے انھیں کے سامنے وہ بیٹھی تھیں اور مسافروں کو اپنی پلاتی تھیں اور کھانا کھلاتی تھیں حضرت ابوبکر وغیرہ نے گوشت اور چھوہارے ام معبد سے مانگے تاکہ خیرد کر لیں مگر وہاں کچھ نہ نکلا وہ لوگ محتاج ہوگئے تھے وہاں قحط پڑ گیا تھا پھر رسول خدا ﷺ نے خیمہ کی دراز سے ایک بکری دیکھی تو آپ نے پوچھاک ہ اے ام معبد یہ بکری کیسی ہے ام معبد نے کہا کہ کمزور ہونے کے سبب سے یہ بکری گلہ سے پیچھے رہ گئی ہے حضرت نے فرمایا کہ کیا اس میں دودھ ہے ام معبد نے کہا کہ یہ بہت کمزور ہے اس میں دودھ کہاں حضرت نے فرمایا کیا تم اجازت دیتی ہو کہ میں اس بکری کا دودھ دھوں ام معبد نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہو جائیں اگر آپ اس میں دودھ دیکھیں تو دودھ لیں پس رسول خدا ﷺ نے اس بکری کو منگوایا اور اس تھنوں پر ہاتھ پھیرا اور اللہ عزوجل کا نام لیا اور اس کی بابت دعا کی پس اس کے تھنوں میں دودھ بھر آی اور پھول گئے آپ نے ایک برتن
منگوایا جس میں سب لوگ مل کر کھاتے تھے آپ نے س میں دودھ دوھا یہاں تک کہ دودھ اس کے اوپر تک آگیا پھر آپ نیوہ دودھ ام معبد کو پلایا یہاں تک کہ وہ سیراب ہوگئیں پھر آپ نے اپنے اصحاب کو پلایا یہاں تک کہ وہ بھی سیراب ہوگئے پھر سب کے بعد آپ نے پیا پھر آپ نے اسی برتن میں دوبارہ اس کو دوھا یہاں تک کہ پھر وہ برتن بھر گیا بعد س کے وہ دودھ آپ نے ام معبد کے پاس چھوڑ دیا ام معبد نے اس کو بیچا اور آنحضرت ﷺ اور آپ کے ساتھ کے لوگ وہاں سے چل دیئے تھوڑی دیر کے بعد ام معبد کا شوہر اپنی دبلی کمزور بکریوں کو لئے ہوئے آیا جو ایسی دبلی تھیں کہ ان کی ہڈیوں میں مغز بھی کم تھا جب ابو معبد (یعنی ام معبد کے شوہر۹ نے دودھ دیکھا تو تعجب سے کہا کہ اے ام معبد یہ دودھ تمہارے پاس کہاں سے آیا بکری بھی بہت دنوںکی جنی ہوئی ہے اور کوئی دوسرا دودھ والا جانور بھی گھر میں نہں ہے ام معبد نے کہا نہیں واللہ یہ کوئی بات نہیں ہے بلکہ ایک مرد مبارک کا گذر ہم پر ہوا جس کا یہ حال تھا ابو معند نے کہا کہ اے ام معبد کچھ اوصاف ان کے بیان کے کرو ام معبد نے کہا میں نے ایک مرد کو دیکھا جس کا حسن غالب تھا چہرہ چمکدار تھا خوش خلق تھا نہن ان کا پیٹ بڑا تھا اور نہ سر چھوٹا تھا جسم خوشبودار اور حسین تھا آن کھیں سیاہ تھیں اور پلکیں دراز تھیں اور آواز میں ایک خاص لہجہ تھا گردن لانبی تھی ڈاڑھی گھنی تھی ابرو خمدار اور دراز تھیں اگر وہ چپ ہوتے تو ان پر ایک ہیبت ہوتی تھی اور اگر وہ کلام کرتے تو ایک رونق ہوتی دور سے نہایت جمیل اور باہیبت معلوم ہوتے تھ اور قریبسے نہایت حسین اور شیریں کلام تھے باتیں بہت میٹھی ہوتی تھیں نہ کم سخن تھے اور نہ بہت باتیں کرنے والے تھے ان کی باتیں گویا موتی کی لڑیاں ہوتی تھیں میانہ قد تھے نہ دراز قامت اور نہ ایسے کہ کوئی شخص پستہ قامتی کی وجہس ے ان کو حقیر سمجھے ایک درمیانی حالت تھی تین آدمی تھے تینوں میں وہی زیادہ تر و تازہ اور صاحب قدر تھے ان کے کچھ رفیق تھے جو ان کو گھیرے رہتے ہیں جب وہ بات کرتے ہیںت و وہ لوگ چپ ہو کے ان کی بات سنتے ہیں اور اگر وہ کچھ حکم دیتے ہیں تو وہ لوگ فورا ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں محذوم اور مطاع تھے ترش رو اور بے فیض نہ تھے ابو معبد نے کہا خدا کی قسم یہ وہی قریش کے شخص ہیں جن کا ذکر ہم سے مکہ میں کیا گیا تھا میں نے اردہ کر لیا ہے کہ ان کے اتھ رہوں گا اور یقینا میں اسیا کروں گا اگر مجھے کوئی سبیل اس کی ملی پھر ایک بلند آواز مکہ میں طاہر ہوئی لوگ اس آواز کو سنتے تھے مگر آواز والے کو نہ دیکھتے تھے اور یہ ہہ رہا تھ
جزی اللہ رب الناس خیر جزائد رفیقیں قا الا خیمتی اکر معبد ھما نزلا ھا بالھدی و اختلاف بام
فقد فاز من امسی رفیق محمد نیاں قصی مازوے اللہ عنکم بہ من فعال لاتجاری و سود
لیھن بنی کعب مقاء فتاتھم و مقعد ھا للمومنین بمرصد سلوا اختکم عن شاتھا وائائھا
فانکم ان تسالوا الشاۃ تشھد دعاھا بساۃ حائل فتحلبت علیہ صریحا ضرۃ الشاۃ یرباء
ففاورھا رھنا لدیھا الخالب یرد دھا فی مصدر ثم مورد
(٭ترجمہ عالم عمدہ جز دے رفیقون کو جو ام معبد اترے تھے وہ ہدایت کے ساتھ ام معبد نے ان سے بے شک کامیاب ہوئے محمد کا رفیق بنا خر کہ محمد تمہارے ایسے افعال کے عبث اور بے سود کو اپنی عورتوںکی اور مومنوںکی ذلیل کرے گا تم ام معبد سے پوچھو اور برتن کی کیفیت بکری سے پوچھو گواہی دے گی محمد بے دودھ والی اور اس نے دودھ بکری کا تھن پھول گیا پھر اس کے یہاں بھی جس کو ام معبد)
جب حسان بن ثانت نے ان اشعار کو سنا تو انھوں نے اس باتف غیبی کے جواب میں اشعار کئے
لقد خاب قوم زال عنھم بلیھم وقدس من یسری الیھم و یفتدی ترحل من قوم فضلت عقولھم
وحل علی قوم بنور مجدد ھداھم بہ بعد الضلالہ ربھم وارشدھم من یتبع الحق یرشد
وھل یستوی ضلال قوم تسنھوا ممایتھم ھادبہ کل فھد وقد نزلت منہ علی اھل یثرب
رکاب ھدی حلت علیھم باود بی یر ما لایری الناس حولہ و یتلوکتاب اللہ فی کل مسجد
وان قال فی یوم مقالۃ غائب فتصدیقھا فی الیوم او فی ضحی القد
(٭ترجمہ بے شک وہ قوم جس سے اور مقدس ہو پاس وہ گئے پاس سے وہ چلے گم ہوگئیں اور پاس وہ نور کے ساتھ ان کو ان کے پروردگار بعد گمہرای کے اور ان کی رہنمائی جو کوئی حق کی کرتا ہے وہ کیا ایک ایسی قوم ہمراہ جو بے وقوف بینائی سایسے شخص برابر ہوسکتی لوگ ہدایت اہل یثرب پر اس وجہس ے ہدایت سواریاں نیک اتریں ایسے ان چیزوں کو ہیں جن کو ان کے پاس نہیں دیکھتے ہر نماز کے کی کتاب جن کو کرتے ہیں تو اس کی تصدیق آ ج کل ہو جاتی ہے)
یہ حبیش پھر اسلام لائے ور فتح مکہ میں رسول خدا ﷺ کے ہمراہ شریک ہوئے فتح مکہ کے دن یہ اور کرز بن جابر و شہید ہوگئے تھے یہ دونوں خالد بن ولید کے سواروں میں تھے اور ان کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستہ یں چلے تھے پس مشرک ان کو مل گئے اور انھوں نے ان کو قتل کر دیا ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)