مولانا حافظ اللہ بخش
مولانا حافظ اللہ بخش (تذکرہ / سوانح)
مولانا حافظ اللہ بخش بن ھاجی خان سیٹھر گوتھ شھمیر دیرو تحصیل کنڈیارو ضلع نوشہرو فیروز میں تولد ہوئے ۔ یہ وہ سال تھا جس سال دادو ریلوے لائن کی ابتداء ہوئی تھی۔ بعد میں آپ کے والدین گوٹھ شھمیر کی رہائش ترک کرکے گوٹھ بگودڑو تحصیل بھریا ستی میں سکونت اختیار کی۔
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم پرائمری سندھی اسکول بگودڑو سے حاصل کی اس کے بعد نور پور ضلع دادو میں قرآن حکیم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ وہاں سے سیدھے ہمایوں شریف آئے مدرسہ میں داخلہ حاصل کی اور بحر العلوم مفتی اعظم حضرت علامہ مفتی عبدالغفور ہمایونی قدس سرہ کی خدمت بابرکت میں رہ کر علوم قعلیہ و نقلیہ میں فراغت پائی اور ستار فضیلت سے نوازے گئے۔ اس کے بعدمولانا محمد صالح بھٹی گوٹھ دھنگو نزد بھریاروڈ اسٹیشن کی صحبت اختیار کرکے علم جفر، رمل اور عملیات کی تعلیم و تربیت حاصل کی۔ اس کے علاوہ راجپوتہ ، بمبئی، بنگال اور حیدرآباد دکن جیسے دور دراز علاوقوں کا سفر اختیار کیا وہاں کے نامور جادوگروں اور طلسماتی لوگوں کی صحبت اختیار کی۔
(زمانہ طالب علمی میں شوق علم کے تحت جادوگری و طلسمات وغیرہ سیکھے لیکن قرائن و شواہد سے معلوم ہوت اہے کہ آپ عملی زندگی میں درس و تدریس سے وابستہ رہے اور جادوگری سے کوئی دلچسپی نہیں رکھی ۔ واللہ و رسول اعلم ، راشدی غفلہ الہادی)
بیعت:
حضرت خواجہ محمد حنس جان سرہندی علیہ الرحمۃ سے سلسہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں دست بیعت ہوئے۔
درس و تدریس:
تعلیم و تربیت اور علم و ہنر حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس سے وابستہ رہے اور سندھ کے مختلف مدارس میں تاحیات تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے۔
گوٹھ دیہات تحصیل کنڈیارو میں دو سال ، جام نور اللہ گوٹھ نزد کنڈیارو میں آٹھ سال، رئیس حاجی دلاور خان دھراج کے اصرار پر ان کے مدرسہ گوٹھ محبت دیرو جتوئی میں درگاہ شریف راشد یہ پیر جو گوٹھ میں حضرت پیر سید شاہ مردان شاہ اول پیر صاحب پگارہ پنجم کے صاحبزدگان کو ، گوٹھ بیالیس داد تحصیل نوابشاہ میں حاجی سید امام علی شاہ کے صاحبزادگان سید خالی شاہ، سید کرم شاہ کے علاوہ کلوئی، جمالی، منگی زرداری اور چانڈیہ خاندان کے افراد کو تعلیم دی۔
گوٹھ حاجی باجھی خان زرداری میں ایک سال ، گوٹھ سرائی خیر محمد جھتیال لب دریا، تحصیل ڈوکری ضلع لاڑکانہ میں چالیس سال سے زائد عرصہ درس و تدریس میں بسر کیا۔ اس کے بعد ضعف و نقاہت کے سبب بقیہ زندگی اپنے گھر بسر کرنے کا فیصلہ کرکے اپنے گھر گوٹھ بگو دڑو تحصیل کنڈیار وواپس ہوئے۔ لیکن تلامذہ قدیم کے اصرار پیہم کے سبب گوٹھ میرو خان سیال نزد محراب پور اسٹیشن مین امامت کے فرائض انجام دیے، جہاں فالج کا اٹیک ہوا اور اپنے گھر واپس ہوئے اور تین سال افاقہ و علالت کے میں بسر کرکے انتقال کیا۔
شادی و اولاد:
آپ نے ۱۳۲۴ھ کو شادی کی ۔ جس سے چار بیٹے اور چار بیٹیاں تولد ہوئیں۔ ان میں سے ایک بیٹا اور چار بیٹیوں کا آپ کی زندگی میں انتقال ہوگیا۔ تین بیٹے اس وقت بقید حیات ہیں۔
۱۔ میاں عبدالباقی
۲۔ عبدالہادی
۳۔ عبدالباری
شاعری:
مولانا شاعری سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ حمد ، نعت، مولود، منقبت اور غزل وغیرہ صنف میں شاعری دستیاب ہے۔
وصال:
مولانا حافظ الحاج اللہ بخش نے ۱۳۸۵ھ بمطابق ۱۹۶۵ء کو بروز پیر بوقت صبح ایک سو بیس سال کی عمر میں انتقال کیا۔ گوٹھ بگودڑو تحصیل بھر یا ستی میں مسجد شریف کے احاطہ میں مدفون ہوئے۔(میاں امام بخش حنفی قادری تحصیل فیض گنج کی تحریک پر میاں عبدالباقی صاحب نے اپنے والد کی سوانح تحریر کرکے موصوف تک پہنچائی اور حنفی صاحب نے فقیر کو ارسال کی اور فقیر نے مضمون تیار کیا، دنوں حضرات کا مشکور و ممنون ہوں)
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)