سیّد ہیبت شاہ شہید رحمتہ اللہ علیہ
سیّد ہیبت شاہ شہید رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
آپ حضرت سیّد محمد سعیددُولابن سید محمد ہاشم دریادل رحمتہ اللہ علیہ کے فرزند اکبراورمریدو خلیفہ تھے۔
تعلیم
آپ علم ادب وفقہ و عروض کے بڑے عالم تھے۔آپ کے ہاتھ کی کتاب عروض سیفی یادگارہے۔اُس پرآپ کی مندرجہ ذیل مُہرثبت ہے۔
سجع مُہر
آپ کی مُہرکاسجع یہ تھا۔
"زلطف حاجی وہاشم سعیدہیبت شاہ"
فائدہ
اس سجع میں یہ صفت بھی ملحوظ ہے کہ اس میں آپ کے والد اوردادااورپرداداکے نام بترتیب نزولی آگئے ہیں۔
واقعہ شہادت
آپ ابھی نوجوان تھے۔آپ کی شادی تیارتھی۔نکاح کا دن تاریخ مقرر ہوچکاتھا۔آپ ایک روزشکارکو تشریف لے گئے۔آپ کی سواری میں نہایت عمدہ گھوڑی تھی۔ جب نَیستاں میں پہنچے تووہاں چند ڈاکو بیٹھے تھے۔انہوں نےگھوڑی کےلالچ میں آپ کو شہید کردیا اور گھوڑی لے گئے۔آپ کے پاس کولی نام شکاری کُتّی تھی۔وہ واپس آئی اورلوگوں کے دامن منہ میں پکڑ کر کھینچتی۔آخر وہ کھینچ
کرنعش کے پاس لے گئی۔آپ کی شہادت سے خاندان کو بہت صدمہ ہوا۔
علّامہ شیخ محمد ماہ صداقت کنجاہی رحمتہ اللہ علیہ نے اس واقعہ کے متعلق ثواقب المناقب میں لکھا ہے۔"ہم دریں ایّام طاؤسِ خلد مانوس یعنی میاں ہیبت شاہ خلف الرشیدِ آں گلشنِ کرامت بآبِ شمشیرِ باغیاں رنگ صبغتہ اللہ شہادت ریخت"۔
کرامت
قاتلوں کا سزایاب ہونا
منقول ہے کہ آپ کو شہید کرنے والے موضع چھمّوں ضلع گجرات کے ڈاکوتھے۔جب وہ گھوڑی لے کر چلے گئے تو آگے جاکراُس کی تقسیم میں اُن کا تنازعہ ہوگیا۔ ہر ایک یہی چاہتاتھاکہ گھوڑی مجھ کو ملے۔آخراسی چَخ مچخ میں وہ آپس میں لڑپڑے اورایک دوسرے کے ہاتھ سے قتل ہوگئے۔
تاریخ شہادت
سیّد ہیبت شاہ کی شہادت اپنے والد کی زندگی میں ۱۱۲۶ھ میں ہوئی۔ گورستانِ نوشاہیہ میں مدفون ہوئے۔
چُورہ ہیبَت شاہ
جس زمین پرآپ شہیدہوئے تھے ۔اُس خون آلودزمین کو کھود کر مسمّی شام سنگھ اگروئیہ نے ایک گھڑا میں ڈال کر اپنے گھر میں تبرکاً رکھ لیا۔جوکچھ عرصہ کے بعد زمیندارانِ اگرویہ نے اُس سے لے کر اپنے گاؤں کی سرحد میں دفن کردیااوراُس پر قبر بنادی۔جو تک بنام "چورہ ہیبت شاہ"مشہورہے
اورموضع اگرویہ اور دبھولہ کے درمیان کلّر میں موجودہے۔
امسال ۱۳۷۶ھ میں مسمّی محمد الدین بن امیرابافندہ اگروئیہ نے جو میرے والد اعلیٰ حضرت سیّد غلام
مصطفےٰ نوشاہی برخورداری ادام اللہ برکاتہٗ کا مرید ہے ۔اُس چورہ کی عمارت کو پختہ کروادیاہے اور اُس
پر ایک چھوٹاساگنبدبنوادیاہے۔جزاہ اللّٰہ تعالٰی
مرثیہ و تاریخ
ازعلّامہ شیخ محمد ماہ صداقت کنجاہی صاحب ثواقب المناقب
رفت خورشیدوشفق درچارسوئے روزگار |
داغِ سودائیش چوبرگ لالہ داردیادگار |
مصحفِ رخسارِ اوتاہمچو گل سیپارہ شد |
ہیضئہ بُلبل بخوں غلطیدہ گویاغنچہ وار |
طورشد سنگِ فلاخن از تجلی ہائے او |
گرچہ خود نبشت درسنگِ لحد ہمچوں شرار |
رشتئہ تسبیح یاقوت ست ہرتارِ نفس |
مے جہدازبسکہ لختِ دل بآہ شعلہ بار |
دردِآہِ خویش ماراسرمئہ آوازشد! |
بے صدا کُشتیم چوں زنجیرزلفِ آن نگار |
طاقِ ابروئے بتاں طرحِ پَرِ سرخاب ریخت |
اشکِ خونیں بسکہ شد درماتمِ اوآشکارا |
گُل کباب ازشعلئہ آوازِ بلبل مے شود |
سَردقُمری شمع باپروانہ مے بینم دوچار |
تاچہ طوبیٰ ریشہ درفردوس زدآں سردِ ناز |
شدسراپاداغ چوں طاؤسِ باغِ زرنگار |
آسماں سنگِ حوادث برسرِ آرام ریخت |
داشت گویانخل ماتم بارِ خاطر درکنار |
داغہائے سینئہ ماتیرہ بختاں مے شود |
نقشِ مُہرِ خضرِ جوروجفائے روزگار |
نیست بیجاگرسیاہی رفت از چشم ِپدر |
طفلِ اشکش مشقِ طوفاں کردہ برلوحِ مزار |
سیلِ اشکِ ماست طوفاں جلوہ ماہی تابماہ |
ہالہ چوں گرداب زیں دریاچساں گیردکنار |
ہریکے چوں گردبارازبسکہ برسرخاک ریخت |
گشتہ خطِ سرنوشتِ مردماں خطِ غبار |
چوں چنارم بازدست ازکاردکارازدست رفت |
حیرتِ دل بسکہ بردازکف عنانِ اختیار |
پنجئہ مژگاں بخونِ دیدہ رنگین میشود |
رفت چوں رنگِ حناتاازکفِ ماآں نگار |
رفتنِ مصحف بوبسم اللہ دیوانِ حشر |
نیست بے معنی اگرآرام خواند اَلفرار |
بست تابارِ سفر نخلِ قدش مارازرشک |
دست برہم سودنِ خود سوخت مانندچنار |
سربصحرادادہ چوں سیلِ بہارازاضطراب |
کوہِ تمکینم کہ شد دیوانہ آسا سنگسار |
محوِ دامِ اضطرایم بے زبانی باگواہ |
ظاہر و باطن چوماہی داغ داغ وخارخار |
تاگذشت آں ابرِرحمت از سرِ اہلِ نیاز |
نامئہ اعمال ماراشستہ چشمِ اشکبار |
سبزہ زارخُلد درجولانِ استقبالِ او |
گشت چوں طاؤس ہم پرواز چشمِ انتظار |
سالِ تاریخِ شہادت رابخوں کردم رقم |
لالہ فردوس شدآن زادۂ کوہِ وقار۱۱۲۶ھ |
مادہ ہائےتاریخ
۱۔ آیت شریف ادخلوالجنۃ
۲۔ آیت شریف تامرون بالمعروف
(شریف التواریخ جلد نمبر ۲)