بن مالک بن عویمر بن ابی اسید بن رفاعہ بن ثعلبہ بن ہوازن بن اسلم بن افصی اسلمی۔ اور بعض لوگ ان کو حجاج بن عمرو اسلمی کہتے ہیں مگر پہلا ہی قول صحیح ہے یہ مدنی ہیں۔ مقام عرج میں فروکش تھے ان سے صرف ایک مختلف فیہ حدیث مروی ہے کہ سفیان بن عینیہ نے ہشام بن عروہ سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے حجاج سے رویت کیا ہے کہ انھوں نے کہا میں نے رسول خدا ﷺ سے پوچھا کہ حق (٭اہل عرب کا دستور تھا کہ جب چبچہ کا دودھ چھڑاتے تھے تو مرضعہ کو اس کی مقررہ اجرت کے علوہ بھی کچھ دے دیتے تھے تاکہ اس کا حق ادا ہو جائے اسی
کے متعلق انھوں نے پوچھا کہ کیا چیز دینا چاہئے جس یں پوری طرح حق ادا ہو جائے) رضاعت مجھ سے کیوں کر ادا ہوسکتاہے حضرت نے فرمایا کہ ایک غلام یا ایک لوندیکے دینے سے اور لوگوںنے فیان کی مخافلت کی ہے۔ ہمیں عبداللہ بن اہمد بن علی وغیرہ نے خبر دی وہ اپنی سند سے ابو عیسی ترمذی سے روایت کرتے تھے کہ انھوں نے کہا ہم سے قتیبہ نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں حاتم بن اسماعیل نے ہشامبن عروہ سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے حجاج بن حجاج اسلمی سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کر کے کہ انھوں نے رسول خدا ﷺ سے پوچھا پھر انھوں نے اسی حدیث کو ذکر کیا پس انھوں نے عروہ اور حجج اسلمی کے درمیان میں حجاج ابن حجاج کو بڑھا دیا ہے۔ ہمیں ابو احمد عبد الوہاب بن علی بن علی بن سکینہ نے اپنی سند سے ابودائود یعنی سلیمان بن اشعث تک خبر دی وہ کہت تھے ہم سے عبداللہ بن محمد نفیلی نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں ابو معاویہ نے خبر دی نیز ابو دائود کہتے تھے کہ ہم سے ابن علاء نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں ابن ادریس نے ہشام بن عروہ سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے حجاج بن حجاج سے انھوں نے اپنے والد سے نقل کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ حق رضاعت مجھ سے کیوں کر ادا ہوسکتا ہے آپ نے فرمایا ایک غلام کا ایک لونڈی کے دینے سے۔ نفیلی نے بھی حجاج بن حجاج اسلمی کہا ہے یہ الفاظ انھیں کے تھے۔ معمر اور ثوری ور ابن جریج اور لیث بن سعد اور عبداللہ بن یمنر اور یحیی قطان وغیرہم نے بھی حاتم بن اسماعیل کی موافقت کی ہے انھوں نے سند میں حجاج بن حجاج کا ذکر کیا ہے۔ اور ابن عینیہ کی حدیث غلط ہے۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)