(سیدنا) حجاج ۰رضی اللہ عنہ)
(سیدنا) حجاج ۰رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن علاط بن خالد بن نویرہ بن خشر بن بلال بن عبید بن ظفر بن سعدبن عمرہ بن تیم بن بہزا بن امرء القیس بن بہشہ بن تیم بن منصور سلمی ثم البہزی کنیت انک ی ابو کلاب اور بعض لوگ کہتے ہیں بو محمد اور بعض لوگ کہتے ہیںابو عبداللہ مدینہ میں رہتے تھے ان کا شمار اہل مدینہ میں ہے انھوں نے وہاں ایک مسجد بنائی تھی اور ایک گھر بنایا تھا وہ انھیں کے نام سے مشہور ہے یہ والدہیں نضر بن حجاج کے جن کو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جلا وطن کر دیا تھا جب انھوں نے ایک عورت کو یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا۔
ھل من سبیل الی خرفا شربھا ام ھل سبیل الی نضر بن حجاج
(٭ترجمہ یا کوئی سبیل تم پر اب ملنیکی ہے کہ میں س کو پیوں کیا تکوئی سبیل نضر بن حجاج کے ملنے کی ہے)
نضر بن حجاج بہت حسین تھے۔ حجاج اسلام لائے اور ان کا اسلام اچھا ہوا خیبر میں نبی ﷺ کے ہمراہ شریک تھے ان کے اسلام کا سبب یہ ہوا کہ یہ اپنی قوم کے سواروں کے ستھ مکہ کی طرف گئے تھے ایک خوفناک نگل میں انھیں شامہوگئی ان سے ان کے ستھ والوں نے کہا کہ اے ابو کلاب اٹھو اور اپنی اصحاب کی حفاظت کرو چنانچہ حجاج بن علاط کھڑے ہوگئے اور اپنے اصحاب کے گرد گشت کرنے لگے ان کی پاسبانی کرتے جاتیت ھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ میں اپنی جان کی ور اپنے ساتھیوں کے جان کی پنہ مانگتا ہوں ہر س جن سے جو اس جنگل میں ہو یہاں تک کہ میں اور میرے ساتھی صحیح سلامت لوٹ جائیں پس انھوں نے ایک کہنے والے کو سنا کہ وہ کہہ رہا ہے یا معشر الجن والانس ان استطعم ان تنفذو من اقطلا السموات والارض فانفذو الا تنفذون الا بسلطان پھر جب یہ مکہ پہنچے تو انھوں نے جماعت قریش کو اس کی خبر دی ان لوگوں نے ان سے کہا کہ تم بے دین ہوگئے ہو واللہ اے ابو کلاب یہ تو اسی کلامکا ایک ٹکڑا ہے جو محمد کہا کرتے ہیں ہ ان پر نازل ہوا ہے انھوں نے کہا واللہ میں نے اس کو سنا ہے اور میرے ستھ والوں نے سنا ہے بعد اس کے یہ اسلام لے آئے جب رسول خدا ﷺ نے خیبر کو فتح کیا تو حجاج بن علائما نے عرض کیا کہ یارسول اللہ مکہ میں میرا کچھ مال ہے اور وہیں میری بی بی بھی ہے میںچاہتا ہوں۶ کہ وہاں جائوں تو کیا مجھ اس بات کی اجازت ہے کہ میں آپ کی کچھ برانی بیان کر دوں یا کچھ کہہ دوں۔ ہمیں عبید اللہ ابن احمد بنب علی نے اپنی سند سے یونس بن بکیر تک خبر دی وہ محمد بن اسحاق سے رویت کرتے تھے کہ انھوں نے کہا مجھ سے بعض اہل مدینہ نے بیان کیا کہ جب حجاج بن علاط سلمی اسلام لائے تو خیبر میں رسول خدا ﷺ کے ہمراہ شریک ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ مکہ میں کچھ مال میرا تاجروں کے پاس ہے اور کچھ مال میری بی بی ام شیبہ بنت ابی طلحہ کے پاس ہے جو بنی عبد الدار کی بہن ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ اگر وہ لوگ میرے اسلامسے واقف ہو جائیں گے تو میرا مل ہضم کر لیں گے پس آپ مجھے اجازت دیجئے کہ وہاں جائوں شاید اپنا مال لے آئوں رسول خدا ﷺ نے فرمایا میں نے تمہیں اجازت دی پھر انھوںنے عرض کیا کہ یارسول اللہ وہاں مجھے یہ بھی ضرورت ہے کہ کچھ کہوں برسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ تم کو اجازت ہے چنانچہ حجاج گئے وہ کہتے تھے کہ مجب میں (مقام) ثینہ بیضاء میں پہنچا تو وہاں قریش کے کچھ لوگ ملے جو خبروں ک اتجسس کر رہے تھے جب انھوں نے
مجھ دیکھا تو کہا کہ یہ حجاج ہیں ان کے پاس کچھ خبر ہوگی میں نے کہا کہ س شخص ۰یعنی محمد ﷺ) کو تو بہت بڑی شکست ہوگئی تمنے سنا ہوگا اور اس کے اصحاب بھی مقتول ہوگئے اور محمد قید کر لئے گئے لوگوںنے کہا کہ ہم ان کو قتل نہ کریں گے ان کو مکہ لے جائیں گے اور وہاں سب لوگوں کے سامنے قتل کریں گے پھر ہم مکہ پہنچے تو ان لوگوں نے مکہ میں شور مچا دیا کہ یہ حجاج آئے ہیں اور خبر لائے ہیں کہ محمد قید کر لئے گئے اب صرف اس بات کا انتظار ہے کہ وہ یہاں لائے جائیں اور تم لوگوں کے سامنے قتل کئے جائیں میں نے کہا کہ تم لوگ میرا مال جمع کر دو کیوں کہ میں خیبر جانے کا ارادہ رکھتا ہوں محمد کا جو مال لوٹا گیا ہے س کو مول لوں گا قبل اس کے کہ تاجر لوگ وہاں پہنچیں چنانچہ ان سب لوگوں نے اچھی طرح میرا مال جمع کر دیا اور میں نے اپنی بی بی سے بھی کہا کہ میرا مال لائو تاکہ میں خیبرجائوں اور وہاں س سستا مال خرید لائوں اس نے بھی میرا مال مجھے دے دیا جب س خبر کا مکہ میں بہت چرچا ہوا تو عباس میرے پاس آئے اس وقت میں ایک تاجر کے خیمہ میں کھڑا ہوا تھا وہ نہایت شکستہ خاطر اور رنجیدہ میرے پاس آکے کھڑے ہوگئے اور انھوں نے کہا کہ اے حجاج یہ خبر کیسی ہے میں نے کہا کہ آپ ٹھہر جایئے مجھ سے خلوت میں ملئے چنانچہ وہ میرے پاس آئے اور کہا کہ اے حجاج تمہارے پاس کیا خبر ہے میں نے کہا میرے پاس واللہ وہ خبر ہے جو آپ کو خوش کر دے گی میں نے واللہ آپ کے بھتیجے کو اس حال میں چھوڑا ہے کہ اللہ نے خیبر ان پر فتح کر دیا اور وہاں کے بہت سے لوگ مقتول ہوئے اور ان کے مال آپ کے بھتیجے کو اور ان کے اصحاب کو ملے اور میں نے ان کو اس حال میں چھوڑا ہے کہ انھوں نے خیبرکی شاہزادی (حضرت ام المومنین صفیہ) سے نکاح کیا ہے اور میں تو مسلمن ہوں یہاں صرف اپنا مال لینے آیا ہوں پھر سول خدا ﷺ کے پاس لوٹ جائوں گا آپ اس خبر کو تین دن تک مخفی رکھیے گا ورنہ مجھے خوف ہے کہ میرا تعاقب کیا جائے گا بعد اس کے میں چل دیا جب تیسرا دن ہوا تو حضرت عباس نے اپنا لباس پہنا اور خوشبو لگائی بعد اس کے عصا لے کر مسجد میں گئے اور حجر اسود کو بوسہ دیا قریش کے لوگوں نے ان کو دیکھا تو کہا کہ اے ابو الفضل تم اس سخت مصیبت پر ایسی سنگدلی کرتے ہو حضرت عباس نے کہا ہرگز نہیں خدا کی قسم خیبر فتح ہوگیا اور محمد اور ان کے اصحابکے مل گیا اور محمد نے وہاں کی شاہزادی سے نکاح کیا ہے ان لوگوں نے پوچا کہ تم سے یہ خبر کس نے بیان کی حضرت عباس نے کہا حجاج بن علاط نے وہ تو مسلمان ہوگئے ہیں اور انھوں نے محمد کے دین کی پیروی کر لی ہے یہاں وہ صرف اپنا مال لینے آئے تھے وہ پھر وہیں لوٹ جائیں گے کفار قریش نے (یہ سن کے بہت واویلا کیا) کہا کہ اے خد اکے بندو دیکھو وہ خدا کا دشمن ہمیں دھوکہ دے گیا پھر تھوڑے ہی دنوں کے بعد (فتح خیبر کی) خبر ان لوگوں کو پہنچ گئی۔ انکا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)