(سیدنا) حجر (رضی اللہ عنہ)
(سیدنا) حجر (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن عدی بن معاویہ بن جبلہ بن عدی بن ربیعہ بن معاویہ اکرمیں میں حارث بن معاویہ بن حارث ابن معاویہ بن ثور بن مرتع بن معاویہ بن کندہ کندی۔ یہ حجر الخیر کے نام سے مشہور ہیں اور یہ کہ ان کے والد عدی کو ادبر اس سببس ے کہتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ بھاگے جارہے تھے ان کے سر میں کسی نے نیزہ مار دیا تھا اسی وجہ سے ان کو لوگ ادبر کہنے لگے۔ نبی ﷺ کے حضور میں اور یہ اور ان کے بھائی ہانی حاضر ہوئے تھے اور جنگ قادیہ میں شریک تھے۔ فضلائے صحابہ میں تھے۔ جنگ صفین میں قبیلہ کندہ کے سپہ سالار تھے اور نہروان میں لشکر کے عشیر پر تھے اور جنگ جمل میں بھی حضرت علی کے ساتھ تھے۔ مشاہیر صحابہ سے ہیں جب زیاد عراق کا حاکم ہوا اور اس نے سختی اور بدچلنی شروع کی تو حجر نے اس کی بیعت واپس کر دی اور حضرت معاویہ کی بیعت انھوں نے واپس نہ کی تھی شیعیان علی رضی اللہ عنہ (٭شیعیان علی سے وہ لوگ مراد ہیں جو حضرت علی مرتضی کے ساتھ رہتے تھے فرقہ روافض) کی ایک جماعت ان کی پیرو ہوگئی ایک دن تاخیر نماز کی بابت انھوں نے اور ان کے اصحاب نے زیادہ پر طعن و تشنیع کی تو زیاد نے ان کی شکایت حضرت معاویہ کو لکھ بھیجی حضرت معاویہ نے لکھا کہ ان کو معہ ان کے اصحاب کے میرے پاس بھیج دو چنانچہ زیاد نے سب لوگوں کو وائل بن حجر حضرمی کے ساتھ بھیج دیا ان کے ساتھ بڑی جماعت تھی جب یہ مقام مرج عذراء میں پہنچے تو انھوں نے کہا کہ میں پہلا مسلمان ہوں جو اس مقام میں تکبیر کہتا ہوں پھر یہ اور ان کے اصحاب عذراء نامی قریہ میں جو دمشق کے پاس ہے اترے حضرت معاویہ نے ان سب کے قتل کا حکم دیا مگر حضرت معاویہ کے اصحاب نے بعض لوگوں کی سفارش کی وہ چھوڑ دے گئے اور حجر اور ان کے ساتھ چھ آدمی قتل کر دیئے گئے اور چھ آدمی چھوڑ دیئے گئے جب لوگوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا تو انھوں نے دو رکعت نماز پڑھی بعد اس کے کہا کہ اگر تم میری طرف کسی ایسی بات کا گمان نہ کرتے جو مجھ میں نہیں ہے (یعنی بزدلی کا) تو بے شک میں ان دونوں رکعتوں کو طول دیتا بعد اس کے انھوں نے کہا کہ میرے ہتھیار نہ اتارنا اور میرے خون کو نہ دھونا میں (قیامت کے دن) معاویہ سے اسی حال میں ملوں گا جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حجر کے ساتھ زیاد کی اس بدسلوکی کی خبر ملی تو انھوں نے عبدالرحمن بن حارث کو حضرت معاویہ کے پاس بھیجا کہ خدا کے لئے حجر اور ان کے اصحابک ی بے حرمتی نہ کرنا مگر عبدالرحمن ایسے وقت میں پہنچے کہ وہ قتل ہوچکے تھے تو عبدالرحمن نے حضرت معاویہ سے کہا کہ ابو سفیان تو حجر اور ان کے اصحاب کے ساتھ بہت بردباری کیا کرتے تھے یہ بات تم میں کیوں نہ ہوئی تم نے ان کو قید کیوں نہ کر دیا یا کسی وبائی مقام میں کیوں نہ بھیج دیا حضرت معاویہ نے کہا اس وقت میری قوم میں تمہارے ایسے (نیک مشورہ دینے والے) لوگ نہ تھے عبدالرحمن نے کہا خدا کی قسم اب اہل عرب نہ تم کو حلیم سمجھیں گے اور نہ صاحب عقل تم نے ایسے لوگوں کو قتل کر دیا جو مسلمان تھے اور تمہارے پاس قید کر کے بھیجے گئے تھے حضرت معاویہ نے کہا میں کیا کرتا زیاد نے مجھے ان کے بہت سخت سخت حالات لکھے تھے اور لکھا تھا کہ یہ لوگ ایسا رخنہ ڈالنا چاہتے جو پھر بند نہ ہوسکے گا۔ جب حضرت معاویہ مدینہ میں آئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے حضرت عائشہ نے سب سے پہلے حجر کے قتل کے متعلق ان سے طویل گفتگو کی حضرت معاویہ نے کہا کہ میرا اور حجر کا
معاملہ ھوڑ دیجئے یہاں تکک ہ ہم دونوں اپنے پروردگار کے یہاں ملیں۔ نافع کہتے تھے کہ حضرت ابن عمر بازار میں تھے جب ان کو حجر کی وفات کی خبر ملی تو ان سے صبر نہ ہوکسا اٹھ کھڑے ہوئے اور رونے کی آؤاز ان سے بلند ہوگئی محمد بن سیرین سے قتل کے دو رکعت نماز پڑھنے کا مسئلہ پوچھا گیا انھوں نے کہا ان دونوں رکعتوں کو حجر اور خبیب نے پڑھا ہے اور یہ دونوں بڑے فاضل تھے۔ حسن (بصری) حجر اور ان کے اصحابکے قتل کو بڑا حادثہ سمجھت یتھے۔ ربیع بن زیاد حارثی کو جو حضرت معاویہ کی طرف سے خراسان کے حاکم تھے حجر کے قتل کی خبر پہنچی تو انھوں نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ربیع کے لئے اگر تیرے پاس بھلائی ہو تو اسے اپنی طرف اٹھالے اور جلدی کر چنانچہ وہ اس مقام سے ہٹنے نہیں پائے کہ ان کی وفات ہوگئی۔ حجر کا وظیفہ دو ہزار پانچ سو تھا ان کا قتل سن۵۱ھ میں ہوا ان کی قبر مقام عذراء میں مشہور ہے۔ مستجاب الدعوۃ تھے۔ ان کا تذکرہ ابو عمر اور ابو موسی نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)