بن الہیم بن لاقیس بن ابلیس، جعفر نے ہامہ کو صحابہ میں شمار کیا ہے لیکن ان کے نزدیک اس کا اسناد ثابت نہیں ابو موسیٰ نے اجازۃ ابو الفرج سعید بن ابو الرجاء سے
انہوں نے ابو علی حسن بن احمد الباد(ح) سے ابو موسیٰ کہتے ہیں ہمیں احمد بن محمد بن احمد سے انہوں نے ابو العباس احمد الرزوانی سے ان دونے احمد بن موسیٰ سے
انہوں نے احمد بن حسین بن احمد البصری سے انہوں نے عبد اللہ بن محمد بن عیسی الضبی بصری سے انہوں نے حسن بن رضوان الشیبانی سے انہوں نے احمد بن موسیٰ سے(انہوں
نے مالک بن دینار سے بہت سے اسناد بیان کیے ہیں) اور انہوں نے انس بن مالک سے یہ روایت بیان کی، کو وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں مکے کی پہاڑیوں
سے دور نکل گئے تھے کہ ایک بڈھا سے سامنا ہوگیا جو ایک نیزے پر سہارا لیے ہوئے تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی چال ڈھال اور آواز جنوں کی سی ہے
اس نے کہا کہ آپ کا اندازہ درست ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا تم جنوں کے کس گروہ سے ہو اس نے کہا ہامہ بن ہیم بن لاقیس بن ابلیس کے گروہ سے حضور
نے فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ تم میں اور اس میں دو نسلوں کا فاصلہ ہے اس نے کہا درست ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دریافت کیا تمہاری عمر کتنی ہوگی اس نے
جواب دیا میری عمر دنیا کی عمر سے چند برس کم ہوگی جس رات قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا میں ان دنوں چند برس کا لڑکا تھا بعدہ میں حضرت نوح علیہ وسلم کے ہاتھ
پر ایمان لایا پھر میں حضرت شعیب علیہ السلام حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی علیہم السلام سے ملا حضرت عیسیٰ نے فرمایا کہ اگر تمہاری ملاقات محمد رسول اللہ سے ہو
تو میری طرف سے انہیں سلام کہنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے اسے قرآن کی دس سورتیں پڑھائیں حضرت عمر سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے لیکن ہمیں اس کی وفات کے بارے میں کوئی اطلاع نہ ملی امید ہے
کہ وہ ابھی تک زندہ ہوگا ابو موسیٰ نے اس کا ذکر کیا ہے۔
ابن اثیر کہتے ہیں ہمارے خیال میں اس کا ترک کردینا اس کے ذکر سے بہتر ہے ہم نے باقی لوگوں کے تتبع میں اس کا ذکر اس لیے کردیا تاکہ اس کا ترجمہ رہ نہ جائے۔
(نوٹ: تعجب ہے علامہ کو یہ خیال کیوں نہ آیا کہ حضرت انس بن مالک جو انصار سے ہیں مکے کیسے پہنچ گئ: مترجم)