ابن ملحان۔ ملحان کا نام مالک بن خالد بن زید بن حرامبن جنیدب بن عامر بن غنم ابن عدی بن نجار ہے۔ انصاری ہیں نجاری ہیں پھر بنی عدی بن نجار سے ہیں۔ حضرت انس بن مالک کے ماموںہیں۔ بدر میں اور احد میں شریک تھے اور بیرا معونہ کے دن شہید ہوئے۔ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے انس بن حام بن لمحان سے روایت کی ہیک ہ حرام بن لمحان حضرت انس کے ماموں تھے جب بیر معونہ کے دن ان کے نیزہ لگا تو اپنا خون لے کے انھوں نے اپنے چہرہ برادر اپنے سر پر چھڑک لیا اور کہا کہ میں تو قسم عرب کعبہ کی پہنچ گیا ہمیں ابو محمد بن ابی القاسم یعنی علی بن حسن بن ہتبہ اللہ دمشقی نے کتابۃ خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں عبد الرحمن بن ابراہیم یعنی ابو محمد نے خبر دی وہ کہتے ھے ہمیں ابو الفرج یعنی سہل بن بشر بن احمد بن سعید نے خبر دی وہ کہتے تھے میں ابوبکر یعنی خلیل بن ہتبہ اللہ بن خلیل نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں عبد الوہاب بن حسن کلابی نے خبر دی وہ کہتیت ھے ہمیں احمد بن حسین بن طلاب نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں عباس بن ولید بن صبح نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو مسہر نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیںابن سماعہ نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں اوزاعی نے خبر دی وہ کہتے تھے مجھے اسحاق بن عبداللہ نے بیان کہ انس بن مالک ان سے کہتے تھے کہ رسول خدا ﷺ نے ستر آدمیوں کو عامر کلابی کے پاس بھیجا جب یہ لوگ اس کے قریب پہنچ گئے تو انصار میں سے ایک شخص نے جن کا نام حرام تھا کہا کہ تم یہیں ٹھہرو میں خبر لے آئوں چنانچہ وہ گئے یہاں تک کہ وادی کے کنارے سے انھیں آواز دی کہ میں رسول خدا ﷺ کا بھیجا ہوا ہوں تم مجھے امن دو تاکہ میں تمہارے پاس آئوں او تم سے کلام کروں لوگوں نے ان کو امن دے دیا پس وہ لوگوں سے باتیں کر رہے تھے کہ یکایک ایک شخص ان کے پیچھے سے آیا اور اس نے نیزہ مار دیا جب حرام کو نیزہ کی حرارت محسوس ہوئی تو کہنے لگے کہ میں تو قسم رب عکبہ کی (اپنی مرد کو)پہنچ گیا پھر ان سب لوگوں نے ان کو قتل کر دیا بعد اس کے ان کے نشان قدم کو دیکھتے ہوئے آے اور ان کے اصحابپر حملہ کیا ان کو بھی قتل کر دیا حضرت انس کہتے تھے کہ جو آیتیں قرآن کی منسوخ ہوگئیں ان میں ایک آیت یہ بھی تھی (جو انھیں لوگوں کے حق میں نازل ہوئی تھی بلعوا اخواننا ان قد لقبنا ربنا فرضی عنا و رضبنا عنہ (٭ترجمہ۔ تمہارے بھائیوں کو خبر پہنچا دو کہ ہم اپنے پروردگار سے مل گئے اور وہم ہم سے خوش ہوا ہم اس سے خوش ہوئے) بعض لوگوںکا بیان ہے کہ حرام بن لمحان بیر معونہ کیدن زخمی اٹھا لائے گئے تھے ضحاک بن سفیان کلابی نے جو پوشیدہ طور پر مسلمان ہوچکے تھے اپنی قوم کی ایک عورت سے کہا کہ کیا میں تیرے پاس ایک ایسے شخص کو لے آئوں کہ اگر وہ اچھا ہو جائے تو عمدہ چرواہا ہوگا (وہ عورت راضی ہوگئی اور ضحاک حرام کو اس عورت کے پاس لے گئے) اس عورت نے ان کو اپنے یہاں رکھ لیا اور ان کا علاج کیا ایک روز اس عورت نے ان کو یہ کہتے ہوئے سن لیا۔
انت عامر ترجوا لھوادۃ بیننا وھل عامر الا عدو مداجن اذا ما رجعنا ثم لم تک وقعۃ
اسیافنا فی عامر و نطاعن فلا ترخواناان تقاتل بعدنا دشائرنا والمقربات الصوافن
(٭ترجمہ قبیلہ عامر کے لوگ ہم میں مصالحت کی امید رکھتے ہیں حالانکہ وہ لوگ (ہمارے) مخفی دشمن ہیں ہم یہاں سے لوٹ کے گئے ور ہم
نے اپنی تلواروں سے عام حملہ نہ کیا اور نہ بریتو ہم سے یہ بھی امید نہ رکھو کہ ہم اس کے بعد اپنے قبیلہ والوں سے تیز گھوڑوں پر سوار ہوکے لڑیں گے)
پس جب ان لوگوں نے یہ شعر سنے تو سب ان کے پاس جمع ہوگئے اور ان کو قتل کر دیا۔ مگر پہلا ہی قول صحیح ہے۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)