(سیدنا۹ حارث (رضی اللہ عنہ)
(سیدنا۹ حارث (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن حسان ربعی بکری ذہلی۔ بعض لوگ ان کو حویرث کہتے ہیں۔ کوفہ میں رہتے تھے۔ ان سے ابو وائل نے اور سماک بن حرب نے رویت کی ہے وہ کہتے تھے ہمیں عبد الوہاب نے اپنی سند سے عبداللہ بن احمد تک خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں عفان نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں سلام یعنی ابو المنذر قاری نے عاصم بن بہدلہ سے انھوں نے ابو وائل نے انھوں نے حارث بن حسان سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے ہمارا گذر مقام ربذہ میں ایک بوڑھیا پر ہوا جو راستہ بھول گئی تھی خاندان بن تمیمس ے تھی اس نے (ہم سے) پوچھا کہ تم لوگ کہاں جاتے ہو ہم لوگون نے کہا کہ ہم رسول خدا ﷺ کے حضور میں جاتے ہیں اس بوڑھیا نے کہا مجھے بھی اپنے ہمراہ لے چلو مجھے ان سے کچھ کام ہے حارث کہتے تھے میں نے اسے اپنے ہمراہ بٹھا لیا جب میں (مدینہ منورہ) پہنچا تو میں مسجد میں گیا مسجد لوگوں سے بھری ہوئی تھی اور ایک سیاہ جھنڈا ہل رہا تھا میں نے پچھا کہ یہ کیا بات ہے لوگوں نے کہا کہ رسول خدا ﷺ عمرو بن عاص کو کسبی طرف (جہاد کے لئے) بھیجنا چاہتے ہیں اور بلال تلوار لئے ہوئے رسول خدا ﷺ کے سامنے کھڑِ ہوئے تھے میں مسجد میں بیٹھ گیا جب رسول خدا ﷺ (اپنے مکان میں) تشریف لے گئے تو مجھ بلوایا میں حاضر ہوا حضرت نے پوچھا کہ کیا تمہارے اور بنی تیم کے درمیان میں جھگڑا ہے میں نے عرض کیا کہ ہاں یارسول اللہ ہمارے کچھ دعوے ان پر ہیں ور میرا گذر ان کی ایک بوڑھیا پر ہوا تھا (میں س کو لیتا آیا ہوں) وہ دروازے پر ہے حضرت نے اسے بلوایا اور وہ آئی میں نے عرض کیا کہ یارول اللہ اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہمارے اور بنی تمیم کے درمیان میں مقام دہناء کو حد فاصل قرار دے دیں تو ہمیں کچھ تقویت ہو جائے حارث کہتے تھے یہ سن کے وہ بوڑھیا سنبھل کے بیٹھ گئی اور سے (اپنی قوم کی) حمیت پیدا ہوئی اور اس نے کہا کہ یارسول اللہ پھر آپ کا (قبیلہ) مضر کہاں جائے گا حارث کہتے تھے ہم لوگوںنے عرض کیاکہ
یارسول اللہ ہم اس بوڑھیا کو اپنے ساتھ بتھا کے لائے ہیں ہم نہ جانتے تھے کہ یہی ہماری دشمن ہو جائے گی۔ میں اللہ کی اور رسول اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں ویسا ہو جائوں جیسا کہ پہلے (٭قوم عاد کی طرف جو شخص بارش کی دعا کرنے کو بھیجا گیا تھا اس کو اہل عرب اپنی مثالوں میں قاصد عاد بھی کہتے تھے اور بہلا بھی کہتے تھے) نے کہا تھا رسول خدا ھ نے فرمایا کہ پہلے نے کیا کہا تھا حارث کہتے ہیں میں نے کہا آپنے ایک باخبر سے پوچھا سلام ۰نامی ایک شخص) نے کہا کہ یہ شخص بڑا بے وقوف ہے رسولخدا ﷺ سے (کس گستاخی کے ساتھ) کہتا ہے کہ آپ نے ایک باخبر سے پوچھا رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہنے دو وہ مجھ سے ایک بات بیان کرتا ہے میں نے عرض کیا کہ قوم عاد پر جب قحط پڑا تو انھوں نے ایک شخص کو بھیجا تاکہ وہ پانی برسنے کی دعا کرے چنانچہ وہ شخص ایک مہینے تک معاویہ بن بکر کے پاس ٹھہرا رہا معاویہ بن بکر اسے شربا پلاتا تھا اور اپنی دونوں گانے والی لونڈیوں کا اس وک گانا سناتا تھا ایک مہینے کے بعد وہ مہرہ نامی پہاڑوں کی طرف گیا اور اس نے کہا کہ اے اللہ میں کسی قیدی کے چھوڑانے کو نہیں آیا نہ کسی بیمار کی دوا کرنے کو آیا ہوں (بکہ پانی طلب کرنے کو آیا ہو) لہذا تو اپنے بندوں کو پانی پلا دے اور ان کے تھ ی معاویہ بن بکر کے یہاں بھی ایک مہینے تک پانی برسا دے اس نے شراب پلانے کا شکریہ ادا کیا جو معاویہ بن بکر کے یہاں اس نے پی تھی پھر اس طرف سیسیاہ سیاہ ابر نکلے اور اسے آواز دی گئی کہ ان بادلوں میں کسی بادل کو سند کر اس نے کہا کہ یہ ساہ ابر (مجھے پسند ہے پھر اسے آواز دی گئی) کہ اچھا اس ابر کو لے اس ین سے راکھ برسے گی جو قوم عاد کے ایک شخص کو بھی زندہ نہ چھوڑے گی ابو وائل کہتے تھے مجھے یہ خبر ملی ہے کہ پھر بہت ہی خفیف ہوا چلی۔ اس حدیث کو ابوبکر بن ابی شیبہ نے عفان سے انھوں نے ابو المنذر سے انھوں نے عاصم سے انھوں نے ابو وائل سے اس طرح روایت کیا ہے ور اس کو زید بن حبابنے بھی ابو المنذر سے روایت کیا ہے اور احمد بن حنبل نے اور سعید اموی نے اور یحیی جمانی نے اور عبد الحمید بن صالح نے اور ابوبکر بن ابی شیبہ نے بھی رویت کیا ہے۔ ان سب لوگوں نے اس کو ابوبکر بن عیاش سے انھوں نے عاصمس ے انھوں نے حارچ سے نقل کیا ہے ابو وائل کاذکر نہیں کیا اور نیز اس حدیث کو عنبسہ بن ازہر ذہلی نے سماک بن حرب سے انھوں نے حارث بن حسان بکری سے رویت کیا ہے ہ انھوں نے کہا جب ہمارے اور ہمارے بھائیوں بنی تمیم کے درمیان میں جھگڑا ہوا تو میں رسول خدا ھ کے پاس گیا میںے آپ کو منبر پر پایا آپ یہ فرما رہے تھے ابوبکر بن وائل کی طرف لشکر بھیجنے کی تیاری کر دو حارث کہتے تھے میں نے عرض کیا کہ یارول اللہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں قاصد عاء کی طرح ہو جائوں اور انھوں نے قاصد عاد کا قصہ طول کے ستھ بیان کیا۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔مگر ابو عمرن نے کہا ہے کہ یہ ہارث بیٹے ہیں حسان بن کلدہ کے بکری ہیں اور بعض لوگ ان کو بھی کہتے ہیں اور بعض لوگ ذہلی کہتے ہیں یعنی اہل ابن شیبان کی اولاد سے اور بعض لوگ ان کو حارث بن یزید بن حسان کہتے ہیں اور بعض لوگ حریث بن حسان کہتے ہیں مگر پہلا ی قول صحیح ہے۔
مں کہتا ہوں کہ جو شخص ان کی نسبت یہ تین قول دیکھے گا بکری اور بعی اور ذہلی سوہ سمجھے گا کہ یہ اختلاف ہے حالانکہ یہ اختلاف نہیں ہے کیوں کہ ذہل بن شیبان قبیلہ بکر کی ایک شاخ ہے ور قبیلہ بکر ربیعہ کی شاخ ہے پس جب ان کو ذہلی کہا گیا تو یہ بکری بھی ہوگئے اور ربعی بھی ہوگئے اور جب ان کو ربعی کہا گیا تو یہ بکری بھی ہوگئے جب ربعی کہا جاتا ہے تو یہ قبیلہ بکر اور ذہل سے بھی ہوسکتاہے اور دوسرے قبیلہ سے بھی ہوسکتا ہے یعنی حنیفہ اور عجل اور عبد القیس وغیرہ سے واللہ اعلم۔ اگر ابو عمر نے ان کو کلدہ کی طرف منسوب نہ کیا ہوتا تو میرا غالب گمان یہی ہوتا کہ یہ
حارث حسان بن خوط کے بیٹِ ہیں کیوں کہ یہ جنگ حمل میں حضرت علی کی طرف تھے اور انھیں کے بھائی بشر نے یہ شعر کہے تھے۔
انا ابن حسان بن خوط والے رسول بکر کلہا الی النبے واللہ اعلم
(٭ترجمہ میں حسان بن خوط کا بیٹا ہوں اور میر والد قبیلہ بکر کی طرف سے نبی کے پاس قاصد بن کے گئے تھے)
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)