(سیدنا) حارث (رضی اللہ عنہ)
(سیدنا) حارث (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن ہشامبن مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخروم۔ کنیت انکی ابو عبدالرحمن قریشی مخزومی۔ ان کی ولادہ ام جلاس اسماء بنت مخربہ بن جندل بن امیں بن نہشل بن دارم تمیمیہ ہیں یہ ابوجہل کے حقیقی بھائی ہیں اور خالد بن ولید کے چچا کے بیٹے ہیں اور بنا برقول صحیح حضرت عمر بن خطاب کی والدہ ختمہ کے بھی چچا کے بیٹِ ہیں اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ان کے بھائی ہیں غزوہ بدر میں کافروں کی طرف سے آئے تھے اور (آخر میں) بھاگ گئے ان کو اس بھاگنے سے عار دلائی گئی اور یہ اشعار حسان بن ثابت نے انھیں کے حق میں کہتے تھے۔
ان کنت کاذبۃ بما حدثتنی فنجوت منجی الحارث بن ہشام
ترک الاحبۃ ان یقاتل دونہم ونجا براس طمرۃ و لجام
(٭ترجمہ اگر تو نے مجھ سے جھوٹ بات بیان کی ہے تو تو حارث بن ہشام کی طرح بچ جائے گا اس نے دوستوں کو چھوڑ دیا ان کے لئے نہ لڑا اور اپنے گھوڑے کی لگام پکڑ کے بھاگا)
ہارث نے اپنے اس بھاگنیکا عذر ایسا بیان کیا ہے کہ (علامہ) اسمعی نے اس کی نسبت کہا ہے کہ ان سے بہتر فرار کے متعلق کسی کا عذر سنا نہیں گیا اور وہ عذر ان کا یہ ہے
اللہ یعلم ماترکت قتالہم حتی رموا فرسی باشقر مزبد
(٭ترجمہ اور جانتا ہے کہ میں نے لڑائی ترک نہیں کی یہاں تک کہ انھوںنے میرے گھوڑے کو نیزہ مارا)
یہ اشعار مشہور ہیں۔ فتح مکہ کے دن اسلام لائے اور حضرت ام ہانی بنت ابی طالب کے یہاں اس روز پناہ لی حضرت علی نے چاہا کہ ان کو قتل کر دیں مگر ام ہانی نے اس کو نبی ﷺ سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا کہ (اے ام ہانی) جس کو تم نے پناہ دی اس کو ہم نے بھی پناہ دی۔ یہ قول زبیر وغیرہ کا ہ اور مالک وغیرہ کا قول ہیک ہ حضرت ام ہانی نے جن کو پناہ دی تھی وہ ہبیرہ بن ابی وہب تھے۔ جب حارث مسلمان ہوئے تو ان کا الام بہت اچھا ہوا اور ان سے بحالت اسلام کوئی ناپسندیدہ بات نہیں دیکھی گئی انھیں رسول خدا ھ نے غزوہ حنین کی غنیمت سے سو اونٹ دیئے تھے جیسا کہ آپ ن مولفۃ اللوب کو دیا تھا یہ غزوہ حنین میں آپ کے ہمراہ شریک تھے۔ اس میں ابو الحرم مکی بن ریان بن شبہ نحوی مقرمی نے اپنی سند سے یحیی سے انھوں نے (امام) مالک سے انھوں نے ہشام بن عروہ سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عائشہ سے رویت کر کے خبر دی کہ رسول خدا ﷺ سے حارث بن ہشام نے پوچھا کہ آپ پر وحی کس طرح آتی ہے رسول خدا ھ نے فرمایا کہ کبھی گھنٹی کی آواز کے مثل آتی ہے اور وہ مجھ پر بہت سخت ہوتی ہے جب یہ حالت رفع ہوتی ہے تو جو کچھ فرشٹے نے بیان کیا اس کو میں یاد کر چکا ہوتا ہوں اور کبھی فرشتہ بشکل انسان میرے پاس آتا ہے وہ مجھ سے کلام کرتا ہے اور جو کچھ وہ کہتا ہے میں اس کو یاد کر لیتا ہوں۔ حضرت عائشہ کہتی تھیں کہ بے شک میں نے سخت سردی کے دنوں میں دیکھا کہ جب حالت وحی آپس ے رفع ہوتی تھی تو آپ کی پیشانی سے پسینہ ٹپکتا ہوتا تھا۔ حارث حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اپنے اہل و عیال اور مال کے مالک شامکی طرف جہاد کرنے گئے تھے اور وہاں برابر جہاد کرتے رہے یہاں تک کہ جنگ یرموک میں رجب سن۱۵ھ میں شہید ہوئے اور بعض لوگ کہتے ہیں (یہ نہیں ہوا) بلکہ
طاعون عمواس واقع سن۱۷ھ میں ان کی وفات ہوئی اور بعض لوگ کہتے ہیں سن۱۵ھ میں۔جب ان کی وفات ہوئی تو ان کی بی بی فاطمہ بنت بن مغیرہ سے جو حضرت خالد بن ولید کی بہن تھیں اور عبد الرحمن بن حارث بن ہشام کی ماں تھیں حضرت عمر بن خطاب نے نکاح کر لیا تھا۔ علمائے نسب نے بیان کیا ہے کہ حارث بن ہشام کی اولاد میں ان کے بعد صرف عبدالرحمن اور ان کی بہن ام حکیم باقی تھین۔ عبداللہ بن مبارک نے اسو بن شیبان سے انھوںنے ابو نوفل بن ابی عقربس ے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا جب حارث بن ہشام مکہ سے بغرض جہاد نکلے تو اہل مکہ کو سخت رنج ہوا کوئی شخص ایسا جو کھانا کھاتا (٭مطلب یہ ہے کہ دودھ پیتے بچوں کے سوا سب آئے تھے) ہو نہیں بچا جو ان کے پہنچانے کو نہ آیا ہو جب یہ بطحا کی بلندی پر پہنچے تو یہ ٹھہر گئے اور سب لوگ ان کے گرد کھڑے ہو کر رونے لگے جب انھوں نے لوگوں کی بے صبری کی حالت دیکھی تو ان کو بھی رقت طاری ہوئی اور یہ بھی رونے لگے اور کہا کہ اے لوگون میں اس واسطے نہیں نکلا کہ تمہارے پاس رہنے کی مجھ کو خواہش نہ ہو یا تمہارے اس شہر سے میں کسی دوسرے شہر کو پسند کرتا ہوں بلکہ یہ معاملہ جب ہوا تو کچھ لوگ نکلے حالانکہ خدا کی قسم وہ نہ اس عمر کے تھے اور نہ ان کے گھر میں سامان تھا پس اب ہم اگر مکہ کے پہاڑ سونے کے ہو جائیں اور ان کو خدا کی راہ میں خرچ کر دیں تو ان کے دنوں میں سے ایک دن بھی نہیں پاسکتے پس اگر وہ دنیا میں ہم سے بڑھ گئے تو ہم یہ چاہتے ہیں کہ آخرت میں ان کے شریک ہو جائیں لہذا یہ اللہ تعالی کی طرف سفر ہے اور ملک شام کا قصد ہے چنانچہ یہ شہید ہوئے۔ ان سے ان کے بیٹے عبد الرحمن نے روایت کی ہے کہ انھوں نے (ایک مرتبہ) عرض کیا کہ یارسول اللہ مجھے کوئی ایسی بات بتایئے جس کو میں گرہ میں باندھ لوں حضرت نے فرمایا اس کو قابو میں رکھو اور آپ نے زبان کی طرف اشرہ کیا یہ کہتے تھے کہ میں نے اس کو بہت آسان سمجھا اور میں بہت کم سخن آدمی تھا میں اس بات کو اچھی طرح نہیں سمجھا مگر جب میں نے تجربہ کیا تو معلمو ہوا کہ اس سے بڑھ کر کوئی بات دشوار نہیں ہے۔ حبیب بن ابی ثابتنے رویت کی ہے کہ حارث بن ہشام اور عکرمہ بن ابی جہل اور عیاش بن ابی ربیعہ یہ سب لوگ غزوہ یرموک میں زخمی ہوئے جب یہ لوگ اٹھا کے لائے گئے تو ہارث بن ہشام نے پانی پینے کے لئے مانگا (جب پانی آیا تو عکرمہ نے ان کی طرف دیکھا انھوں نے (خود پانی نہ پیا اور) کہا کہ یہ پانی عکرمہ کو دے دو جب عکرمہ نے پانی لیا تو عیاش نے ان کی طرف دیکھا عکرمہ نے کہا یہ پانی عیاش کو دے دو عیاش تک جب پانی پہنچا تو ان کی وفات ہوچکی تھی پھر کسی کو پانی نہ پہنچ سکا یہاں تک کہ سب کی وفات (٭یہ تھی ہمدردی اور سچی محبت اپنے بھائیوں کی) ہوگئی۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)