ابن خزرمہ بن عدی بن ابی بن غنم۔ غنم کا نام قوقل بن سالم بن عوف بن عمرو بن عوف بن خزرج ہے۔ انصاری ہیں خزرجی ہیں بنی عبدالاشل کے حلیف تھے۔ بعض لوگ کہتے ہیں ان کا نام حارث بن خزیمہ تھا اور بعض لوگ کہتے ہیں (ابن) خزیمہ یہ طبری کا قول ہے۔ انھوں نے ان کا نسب ویسا ہی بیان کیا ہے جیسا ہم نے لکھا اور ابن کلبی نے بھی ان کا نسب ایسا ہی لکھاہے اور ان لوگوں نے کہا ہے کہ یہ بدر میں اور احد میں اور خندق میں اور اس کے بعد کے تمام مشاہد میں شریک تھے۔ یہی ہیں جو رسول خدا ﷺ کی اونٹنی لے آئے تھے جب وہ غزوہ تبوک میں کھو گئی تھی اور منافقوں نے کہا تھا کہ محمد (ﷺ) اپنی اونٹنی کی خبر تو جانتے نہیں وہ آسمان کی خبر کیسے جان سکتے ہیں رسول خدا ﷺ کو جب ان کی اس گفتگو کا حال معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ میں وہی باتیں جانتا ہوں اللہ جن کی اطلاع مجھے دے اب اللہ نے اس کا مقام مجھے بتلا دیا ہے سنو وہ فلاں شعب کے دادی میں ہے چنانچہ لوگ گئے اور اس کو لے آئے جو شخص اس کو لائے ان کا نام حارث بن خزمہ تھا۔ موسی بن عقبہ نے ان کا ذکر شرکائے بدر میں کیا ہے اور کہا ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی نبیت کی شاخ بنی عبد الاشہل سے حارث بن خزمہ بن عدی جو بنی عبد الاشہل کے حلیف تھے غزوہ بدر میں شریک تھے۔ ہمیں ابو الحرم مکی بن ریان نے اپنی سندسے یحیی بن یحیی تک خبر دی وہ (امام) مالک سے وہ عبداللہ بن ابی بکر بن عباد بن تمیم سے روایت کرتے تھے کہ ابو بشیر انصاری جن کی کنیت حارث بن خزمہ تھی نبی ﷺ کے ہمراہ آپ کے کسی سفر میں تھے آپ نے ایک شخص کو اس کام پر متعین فرمایا کہ کسی اونٹ کی گردن میں بالوں کا پٹہ اگر پڑا ہو تو وہ کاٹ دیا جائے امام مالک کہتے تھے میں سمجھتا ہوں کہ یہ نظر بد سے بچانے کے لئے ڈالا جاتا تھا ابن مندہ نے بیان کیا ہے کہ حارث بن خزمہ وہی شخص ہیں جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس سورہ توبہ کے اخیر کی دو آیتیں لے کے آئے تھے لقد جائکم رسول من انفسکم (٭حضرت عمر رضی الہ عنہ نے جمع قران کے وقت یہ شرط کی تھی کہ جب تک کسی آیت پر وہ گواہ ننہ مل جائیں یعنی حافظ بھی اس کی شہادت دے اور کسی کے پاس لکھی ہوئی بھی ہو اس وقت تک وہ ایت مصحف ہیں نہ لکھی جائے تمام آیات قرانی اس شرط پر ٹھیک اتریں سوا سورہ توب کی اخری دو آیتوں
کیسو وہ بھی کے پاس لکھی ہوئی نکل آئیں) آخر سورت تک۔ میرے نزدیک اس میں اعتراض ہے ہمیں ابو جعفر عبید اللہ بن احمد بن علی اور کئی لوگوں نے اپنی سند سے ابو عیسی یعنی محمد بن عیسی (ترمذی) تک خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے محمد بن یسار نے بیان کیا وہ ہتے تھے ہمیں عبدالرحمن بن مہدی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابراہیم بن سعد نے زہری سے انھوں نے عبید بن سباق سے روایت کر کے خبر دی کہ زید بن ثابتان سے بیان کرتے تھے کہ جنگ یمامہ کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے بلوا بھیجا بعد اس کے انھوں نے جمع قرآن کا واقعہ بیان کیا اور کہا کہ سورہ برائۃ کی آخری آیتیں یعنی لقد جائکم رسول من انفسکم العرش العطیم تک مجھے خزیمہ بن ثابت کے پاس ملیں یہ حدیث صحیح ہے ان حارث کی وفات سن ۴۰ھ میں بعہد خلافت علی رضی اللہ عنہ ہوئی تھی۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)