ابن سوید تیمی۔ ان کا شمار اہل کوفہ میں ہے۔ ان سے مجاہد نے روایت کی ہے۔ ان کی حدیث قطن ابن نسیر سے مروی ہے وہ جعفر بن سلیمان سے وہ حمیدا عرج سے وہ مجاہد سے وہ حارث بن سوید سے راوی ہیں کہ وہ مسلمان ہو کر نبی ﷺ کے ہمراہ رہا کرتے تھے پھر بعد اس کے مرتد ہو کے اپنی قوم سے مل گئے اس کے بعد پھر اسلام لائے۔ یہ ابن مندہ اور ابو نعیم کا قول ہے۔ اور ابو عمر نے کہا ہے کہ ان کا نام حارث بن سوید ہے اور بعض لوگ ان کوابن مسلم کہتے ہیں مخزومی ہیں۔ اسلامس ے مرتد ہوگئے تھے اور کفار سے مل گئے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی کیف یہدی اللہ قوما کفروا بعد ایمانہم و شہد وان الرسول حق الی قول الا الذین تابوا (٭ترجمہ اللہ ان لوگوںکو کیوں ہدایت کرے جو ایمان لاسکے اور اس بات کی شہادت دیت کہ رسول برحق ہیں ہوگئے مگر وہ لوگ جنھوں نے توبہ کی) ایک شخص ان آیات کو حارث کے پاس لے گیا اور انھیں پڑھ کے سنایا حارث نے کہا واللہ میں تجھے چا ہی جانتا ہوں اور اللہ تو سب سچوں سے سچا ہے پھر یہ لوٹ آئے اور مسلمان ہوگئے اور ان کا اسلام اچھا ہوا۔ ان سے مجاہد نے روایت کی ہے۔ انک ا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے میں کہتا ہوں کہ بعض علما نے بیان کیا ہے کہ حارث بن سوید تیمی تابعی ہیں عبداللہ بن مسعود کے شاگردوں میں سے ہیں ان کا صحابی ہونا یا نبی ﷺ کو دیکھنا ثابت نہیں ہے یہ قول بخاری و مسلم کا ہے اور ان دونوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جو شخص مرتد ہوگئے تھے پھر اسلام لائے ان کا نام حارث بن سوید بن صامت ہے اور قسم ہے اپنی جان کی کہ مفسرین کی ہ حالت ہے کہ ایک کہتا ہے کہ فلاں آیت کے نزول کا سبب زید ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ اس کے نزول کا باعث عمرو ہے اور جو شخص اسمائے صحابہ کو جمع کرے اس پر ضروری ہے کہ جو کچھ علما نے بیان کیا ہے اس کو ذکر کر دے گو انھوںنے باہم اختلاف کیا ہوتا کہ گمان کرنے والا یہ گمان نہ کرے کہ یہ بات چھوٹ گئی اور اس تذکرہ زیس کی نظر وہاں تک نہیں پہنچی پس بہتر یہ ہے کہ سب اقوال کو ذکر کرے اور جو ان میں صحیح ہے اس کو ظاہر کر دے۔ دیکھو اس حادثہ میں ابو صالح نے ابن عباس ے روایت کیا ہے کہ جو شخص اسلام کے مرتد ہوگئے تھے اور پھر اسلام لائے وہ حارث بن سوید بن صامت ہیں اور مجاہد نے ذکر کیا ہے کہ وہ یہی ہیں وار مجاہد زیادہ علم رکھنے والے اور زیادہ ثقہ ہیں پس یہ نامناسب ہے کہ کسی اور کے کہنے سے ان کا قول چھوڑ دیا جائے۔ واللہ اعلم۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)