ابن عمرو بن ثعلبہ بن غنم بن قتیبہ بن معن بن مالک بن اعصر باہلی۔ ابو احمد عسکری نے ان کا نسب اسی طرح بیان کیا ہے اور ابن مندہ اور ابو نعیم اور ابو عمر نے ان کو حارث بن حمرو باہلی سہمی کہا ہے اور ابو احمد نے ان کے نسب میں ان کو سہمی نہیں کہا مگر ان کے تذرہ میں لکھا ہیک ہ یہ سہمی ہیں اس سے معلوم ہوا کہ ان سے کچھ رہ گیا ہے۔ ابن ابی عاصم نے بھی ان کو باہلی سہمی لکھاہے اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ قبیلہ باہلی سے ن لوگوں کو نبی ﷺ کی صحبت حاصل ہے ان کے اور معن کے درمیان میں آٹھ پشتیں ہیں اور کم از کم سات پشتیں ہیں منجملہ ان کے
سلمان بن ربیعہ بن یزید بن عمرو بن سہم بن نضلہ بن غنم بن قتیبہ بن معن ہیں بس ابو احمد نے کئی پشتیں نکال ڈالیں واللہ اعلم۔ ہمیں ابو یاسر بن ابی حبہ نے اپنی سند سے عبداللہ بن احمد سے نقل کر کے خبر دی وہ کہت یتھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے یحیینے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے عفان بن زرارہ بن کریم بن ہارث بن عمرو نے اپنے والد ے انھوں نے ان کے دادا حارث بن عمرو سے روایت کر کے بیان کیا کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول خدا ھ سے ملے تھے آپ اپنی اونٹنی عضباء (نامی) پر سوار تھے (یہ کہے تھے) میں نے عرض کیاکہ یارسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہو جایں آپ میرے لئے استغفار کیجئے حضرت ن فرمایا اللہ تمہاری مغفرت کرے ایک شخص نے کہا کہ یارول اللہ فرائع (٭فرائع جمع ہے فریعہ کی اور عتائر جمع ہے عتیرہ ک۔ فریعہ عام قربانی کو کہتے ہیں اور عتیرہ خاص رجب کے مہینے کی قربانی کو جو زمانہ جاہلیت میں مروج تھی سائل کامطلب یہ تھا کہ قربانیاں ضروری ہیں یا نہیں) اور عتائر (کے متعلق) آپ کیا فرماتیہیں حضرت نے فرمایا جو چاہے کرے جو نہ چاہے نہ کرے اور برکیوں میں ان کی قربانی کرنی چاہئے پھر آپ نے فرمایا آگاہ رہو تمہارے کون اور تمہارے مال تم پر (ہمیشہ) اسی طرح حرامہیں جیسے تمہارے اس شہرمیں تمہارے اس مہینے میں اس حدیث کو عبداللہ بن مبارک نے اور معتبر بن سلیمان نے ورابو سلمہ منقری وغیرہم نے یحیی بن زرارہس ے روایت کیا ہے۔ ان کا تذکرہ تینوں ن یلکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)