(سیدنا) حارث (رضی اللہ عنہ)
(سیدنا) حارث (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن ضرار۔ اور بعض لوگ ان کو ابن ابی ضرار کہتے ہیں۔ خزری ہیں مصطلقی ہیں۔ کنیت ان کی ابو مالک ہے ان کا شمار اہل حجاز میں ہے۔ ہمیں عبد الوہاب بن ابی حبہ نے اپنی سند سے عبداللہ بن احمد تک خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے محمد بن سابق نے عیسی بن دینار سے انھوں نے اپنے والد سے نقل کر کے بیان کیا کہ انھوں نے حارث بن ابی ضرار سے سنا کہ وہ کہتے تھے میں رسول خدا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے مجھے اسلام کی ترغیب دی میں مسلمان ہوگیا اور میں نے (توحید و رسالت کا) اقرار کر لیا آپ نے مجھے زکوۃ کی تعلیم کی میں نے اس کا اقرار کر لیا پھر میں نے کہا کہ یارسول اللہ میں اپنی قوم کے پاس لوٹ کر جاتا ہوں اور انھیں اسلام کی طرف اور ادائے زکوۃ کی طرف بلاتا ہوں جو لوگ ان میں سے میری بات مان لیں گے میں ان کی زکوۃ جمع کروں گا اور اے رسول خدا آپ فلاں فلاں وقت میں میرے پاس کسی کو بھیج دیں تاکہ جو کچھ زکوۃ میں جمع کروں وہ آپ کے پاس لے آئے چنانچہ جب حارث ان لوگوں سے جنھوںنے ان کی بات مانی زکوۃ جمع کر لی اور وہ وقت آگیا جس وقت میں رسول خدا ﷺ بھیجنا چاہا تھا تو کوئی قاصد آپ کو نہ ملا حارث نے سمجھا کہ کوئی بات ناخوشی کی خدا و رسول کی طرف سے پیدا ہوئی ہے چنانچہ انھوں نے اپنی قوم کے سرداروں کو بلایا اور ان سے کہا کہ رسول خدا ﷺ نے مجھ سے ایک وقت مقرر کر دیا تھا کہ تمہارے پاس قاصد بھیجوں گا تاکہ جو کچھ زکوۃ میں نے جمع کی ہو اس پر وہ قبضہ کر کرے اور رسول خدا ﷺ کی طرف سے خلاف وعدگی نہیں ہوسکتی اور نہ میں ی سمجھتا ہوں کہ آپ کے قاصد آنے میں دیر کی بلکہ کوئی بات ناخوشی کی ہوئی ہے لہذا چلو رسول خدا ﷺ کے پاس اور ۰ادھر۹ رسول خدا ﷺ نے ولید بن عقبہ ابل ابی معیط کو حارث کے پاس بھیجا تاکہ جو کچھ زکوۃ انھوں نے جمع کی ہو اس پر قبضہ کر لیں چنانچہ ولید گئے اور اثنائے راہ سے لوٹ آئے اور رسول خدا ﷺ سے جاکر کہا کہ یارول اللہ حار ثنے زکوۃ مجھے نہیں دی اور میرے قتل کا اردہ کیا پس رسول خدا ھ نے حارث کی طرف لشکر بھیجا حارث معہ اپنے ساتھیوں کے آرہے تھے جب لشکر انھیں ملا تو انھوں نے پوچھا کہ تم کس کی طرف بھیجے گئے ہو ان لوگوں نے کہا کہ تمہاری ہی طرف حارث نے کہا کہ کیوں ان لوگوں ن کہا کہ رسول خدا ﷺ نے تمہارے پاس ولید بن عقبہ کو بھیجا تھا وہ لوٹ کر حضرت کے پاس گئے اور انھوں نے بیان کیا کہ تم نے انھیں زکوۃ نہیں دی اور ان کے قتل کا ارادہ کیا حارث نے کہا نہیں قسم ہے اس کی جس نے محمد (ﷺ) کو حق کے ساتھ بھیجا ہے نہ میں نے ولید کو دیکھا نہ وہ میرے پاس گئے چنانچہ جب حارث رسول خدا ﷺ کے پاس گئے تو آپ نے ان سے فرمایا کہ تم نے زکوۃ نہ دی اور میرے قاصد کے قتل کا ارادہ کیا حارث نے کہا کہ نہیں قسم اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں نے نہ ان کو دیکھا نہ وہ میرے
پاس گئے میں جو آیا تو اسی وقت آیا جب کہ آپ کا قاصد میرے پاس نہ گیا مجھے خوف ہوا کہ خدا و رسول کی کچھ ناخوشی ہے اسی پر سورۃ حجرات نازل ہوئی یا ایھا الذین امنوا ان جائکم فاسق بنباء فتنبوا ان تصیبوا قوما بجھالۃ الی قولہ واللہ حلیم حکیم (٭ترجمہ اے مسلمانوں جب تمہارے پاس کوئی قاصد کسی چیز کو جائے تو س کی تحقیر کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ اس کی خبر پر اعتبار کر کے تم میں کسی قوم پر جا پرو اس آیت سے معلوم ہوا کہ فاسق کی خبر پر اعتماد نہ چاہئے بلکہ اس کی تحقیق کرنا چاہئے تاوقت یہ کہ پوری طرح اس کی تصدیق نہ ہو جائے اس کو ماننا نہ چاہئے) ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے مگر ابو عمر نے کہا ہے کہ ۰ان کا نام) حارث بن ضرار ہے اور بعض لوگ ابن ابی ضرار کہتے ہیں اور کہا ہے کہ مجھے خیال ہوتا ہے کہ یہ وہ شخص ہیں واللہ اعلم۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)