(سیدنا) حارث (رضی اللہ عنہ)
(سیدنا) حارث (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن مسلم بن حارث تمیمی۔ بعض لوگ ان کو مسلم بن حارث کہتے ہیں مگر پہلا ہی قول صحیح ہے کنیت ان کی ابو مسلم ہے۔ ان کی حدیث ہشام بن عمار نے ولید بن مسلم سے انھوں نے عبدالرحمن بن حسان کنانی سے انھوں نے مسلم بن حارث بن مسلم تمیمی سے رویت کی ہے کہ ان کے والد نے ان سے بیان کیا کہ رسول خدا ﷺ نے انھیں ایک لشکر کے ہمراہ بھیجا۔ (یہ کہتے تھے) جب ہم مقام صفاء میں پہنچے تو میں نے اپنے گھوڑے کو تیز کر دیا اور اپنے ساتھیوں سے پہلے مقام زمیں میں جاکے حریف کے لوگوں سے ملا اور میں نے ان سے کہا کہ لا الہ الا اللہ کہہ دو تو بچ جائو گے ان لوگوں نے کہہ دیا جب میرے ساتھی آئے تو انھوں نے مجھے ملامت کی تو تم نے ہمیں مال غنیمت سے محروم کر دیا حالانکہ وہ ہمرے لئے ثبت ہوچکی تھی ہم جب وہاں سے لوٹے تو لوگوں نے رسول خدا ﷺ سے اس کا ذکر کیا آپ نے مجھے بلایا اور جو کچھ میں نے کیا تھا اس کی تعریف کی اور فرمایا کہ آگاہ رہو اللہ عزوجل نے ان میں سے ہر شخص کے عوض میں تمہارے لئے اس قدر نیکیاں لکھی ہیں عبد الرحمن کہتے تھے میں نیکیوں کی مقدار کو بھول گیا وہ کہتے تھے پھر مجھ سے رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارے لئے ایک تحریر لکھ دوں گا اور میرے بعد مسلمانوں کے جو لوگ حاکم ہوں گے ان کو تمہارے متعلق (اس تحریر میں) وصیت کر دوں گا چنانچہ آپ نے یہ تحریر لکھ دی اور اس پر مہر کر کے میرے حوالہ کر دی ہمیں ابو یاسر بن ہبۃ اللہ نے اپنی سند سے عبداللہ بن احمد تک خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں ابو یاسر بن ہبۃ اللہ نے اپنی سند سے عبداللہ بن احمد تک خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں یزید ابن عبدریہ نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ولید بن مسلم نے عبدالرحمن بن خسان کنالی سے روایت کر کے خبر دی کہ مسلم بن حارث تمیمی نے اپنے والد سے نقل کر کے ان سے بیان کیا کہ وہ کہتے تھے مجھ سے رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ جب تم صبح کی نماز پڑھ چکو تو قبل اس کے کہ کسی سے بات کرو اللھم اجرنی من النار سات مرتبہ کہہ لیا کرو پس اگر تم اس دن مرو گے تو اللہ تمہارے لئے آگ سے امان لکھ دے گا اور جب تم مغرب کی نماز پڑھ چکو تو قبل اس کے کہ کسی سے بات کرو واللھم اجرنی من النار سات مرتبہ کہہ لیا کرو اگر تم اس رات کو مر جائو گے تو اللہ تعالی تمہارے لئے آگ سے امان لکھ دے گا پھر اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ کو دنیا سے اٹھا لیا تو میں اس تحریر کو لے کر ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے پاس گیا انھوں نے اس کو کھولا اور پڑھا اور میرے لئے (وظیفہ مقرر کرنے کا) حکم دیا پھر میں اس تحریر کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا انھوں نے بھی ایسا ہی کیا پھر میں اس کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا انھوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ مسلم کہتیتھے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہی کے زمانے میں میرے والد کی وفات ہوگئی پھر وہ تحریر ہمرے پاس رہی یہاں تک کہ عمر بن عبدالعزیز خلیفہ ہوئے تو انھوںنے اپنے عامل کو جو ہمارے یہاں تھا لکھ کے بھیجا کہ مسلم بن حارث تمیمی کو میرے پاس معہ رسول خدا ﷺ کے خط کے جو حضرت نے
ان کے والد کو لکھ دیا تھا بھیج دو یہ کہتے تھے کہ پھر میں ان کے پاس گیا انھوں نے اس خط کو پڑھا اور میرے لئے (وظیفہ مقرر کرنے کا) حکم دیا پھر انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں نے تمہیں اس لئے بلایا ہے ہ تمہارے والد نے جو حدیثیں تم سے بیان کی ہوں مجھ سے بیان کرو یہ کہتے تھے کہ پھر میں نے صحیح صحیح حدیثیں بیان کیں اس حدیث کو حوطی نے ولید بن مسلم سے انھوں نے عبدالرحمن بن حسان سے انھوں نے حارث بن مسلم بن حارث سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے ان کے دادا سے روایت کیا ہے کہ رسول خدا ﷺ نے انھیں ایک تحریر لکھ دی تھی ابو زرعہ سے پوچھا گیا کہ (صحیح کیا ہے) مسلم بن حارث یا حارث بن مسلم انھوں نے کہا ہے صحیح یہ ہے کہ مسلم بن حارث اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)