ابن عبداللہ بن ایاس۔ بعض لوگ ان کو حرملہ ابن ایاس کہتے ہیں۔ تمیمی عنبری ہیں ان کا شمار اہل بصرہ میں ہے۔ ان کی حدیث صفیہ اور دحیہ دختران علیبہ سے مروی ہے وہ اپنے والد علیبہ سے وہ ان کے دادا سے روایت کرتی ہیں اور ضرغامہ بن علیبہ نے بھی ان سے رویت کی ہے۔ ہمیں عبداللہ بن احمد بن عبد القاہر یعنی ابو الفضل نے اپنی سند سے ابودائود طیاسی تک خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے قرہ بن خالد نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے ضرغامہ بن علیبہ بن حرملہ عنبری نے اپنے والد علیبہ سے انھوں نے ان کے دادا حرملہ سے رویت کر کے بیان کیا کہ وہ کہتے تھے میں قبیلہ کے کچھ سواروں کے ہمراہ رول خدا ﷺ کی خدمت میں گیا حضرت نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی وہ ایسا وقت تھا کہ تاریکی کے سبب سے میں اپنے پاس والے آدمی کو نہ پہچان سکتا تھا پھر جب میں نے لوٹنے کا ارادہ کیا تو عرض کیا کہ یارسول اللہ مجھے کچھ وصیت کیجئے حضرت نے فرمایا کہ خدا سے ڈرو اور جب تم کسی مجلس میں جائو تو جب وہاں سے اٹھنے لگو تو اگر ان لوگوں کو ایسی بات کہتے سنو جو تمہیں پسند آجائے تو پھر اس مجلس میں جانا اور اگر ان کو ایسی بات کہتے سنو جو تمہیں ناگوار ہو تو پھر وہاں نہ جانا۔ اس حدیث کو ابن مہدی اور معاذ بن
معاذ نے قرہ سے اسی طرح رویت کیا ہے۔ انکا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے مگر ابن مندہ اور ابو نعیم نے کہا ہے کہ ان کے دادا کا نام اوس ہے اور ابو عمر نے کہا ہے کہ ایاس ہے ابو موسی نے بھی ایاس کہا ہے۔ ابو عمر نے اس طرح کہہ کر شبہ دور کر دیا ہے حرملہ بن عبداللہ بن بیاس اور بعض لوگ ان کو حرملہ بن ایاس کہتے ہیں پس انھوں نے ابن مندہ اور ابو موسی کے قول جمع کر دیا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)