سیّدنا ہرمی رضی اللہ عنہ
سیّدنا ہرمی رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن عبد اللہ بن رفاعہ بن نجدہ بن مجدعہ بن عامر بن کعب بن واقف ان کا نام مالک بن امرؤ القیس بن مالک بن اوس انصاری اوسی واقفی ہے جناب ہرمی قدیم الاسلام ہیں اور ان لوگوں میں شامل تھے جو غزوۂ تبوک کے موقعہ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سواری کے لیے حاضر ہوئے تھے اور جب خواہش پوری نہیں ہوئی تھی تو روتے واپس ہوئے تھے یہ ابو عمر کلبی ابو نعیم کا قول ہے ہاں اتنا فرق ضرور ہے کہ ابو عمر کے نزدیک ان کا نام ہرم انصاری ہے اور بنو عمر بن عوف سے ہیں کیونکہ بنو واقف ابن کے حلیف تھے اس لیے جنابِ ہرم کو بھی بنو عمرو بن عوف سے سمجھ لیا گیا۔
ابن مندہ لکھتے ہیں کہ ہرمی بن عبد اللہ واقفی کا شمار صحابہ میں ہوتا ہے لیکن بغیر ثبوت کے اور انہوں نے ابن اسحاق سے انہوں نے ثمامہ بن قیس سے انہوں نے ہرمی بن عبد اللہ سے روایت کی جو حضو اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے اور انہیں صحابہ کی صحبت میسر آئی ابو موسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ابن مندہ نے ہرمی بن عبد اللہ کا ذکر کیا ہے لیکن ان سے کوئی حدیث بیان نہیں کہ ہاں البتہ انہوں نے اجازۃً ہمیں ان کی طرف سے وہ حدیث سنائی جو ابو القاسم اسماعیل بن محمد بن فضل نے احمد بن خلف سے انہوں نے ابو الطاہر سے انہوں نے ابو حامد بن بلال سے انہوں نے ابو الازہر سے انہوں نے یعقوب بن ابراہیم سے انہوں نے ابی سے انہوں نے ابن اسحاق سے انہوں نے ثمامہ بن قیس بن رفاعہ واقفی سے انہوں نے ہرمی بن عبد اللہ سے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں پیدا ہوئے اور انہیں کثیر التعداد صحابہ کی صحبت نصیب ہوئی سنا آپ نے فرمایا جو شخص جمعے کی اذان سنتا ہے اور نماز پڑھنے کے لیے مسجد کا رُخ نہیں کرتا تو اس کے بعد کا دوسرا جمعہ اسے زیادہ بوجھل معلوم ہوگا اسی طرح اگر وہ متواتر چار جمعوں کی اذانیں سنتا ہے اور نماز پڑھنے نہیں جاتا تو اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے ابراہیم نے محمد بن اسحاق سے مختصراً روایت کی ہے۔
ابن اثیر لکھتے ہیں کہ ابو نعیم ابو عمر اور ابن کلبی نے انہیں ان لوگوں میں شمار کیا ہے جو غزوہ تبوک کے موقعہ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری مانگنے آئے تھے ابن ماکولا لکھتے ہیں کہ ہرمی سوائے غزوہ تبوک کے تمام غزوات میں شریک ہوئے لیکن ابن مندہ اور ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ جناب ہرمی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بچے تھے لیکن ابن ماکولا کی رائے درست ہے۔
عدوی اور ابن ماکولا کی سوچ ایک جیسی ہے لیکن اس سلسلے میں ابن ماکولا کے بیان میں اختلاف ہے چنانچہ واقفی کے ترجمے میں وہ لکھتے ہیں، ہرمی بن عبد اللہ بن رفاعہ بن نجدہ بن مجدعہ بن کعب الواقفی سوائے تبوک کے تمام غزوات میں شریک تھے اور ان لوگوں میں شامل تھے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری مانگنے آئے تھے ان سے عبید اللہ بن حصین الوائلی نے روایت کی ہے آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ایک روایت کے مطابق ان کا نام ہرمی بن عقبہ تھا اور انہوں نے خزیمہ بن ثابت سے روایت کی ہے۔
ہرمی کے ترجمے میں لکھتے ہیں: ہرمی بن عبد اللہ بن رفاعہ بن نجدہ بن مجدعہ بن کعب الواقفی تبوک کے بغیر تمام غزوات میں موجود رہے اور ان لوگوں میں شامل تھے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری مانگنے آئے تھے اس کے بعد لکھتے ہیں کہ ہرمی بن عبد اللہ نے خزیمہ بن ثابت سے حدیث روایت کی اور ان سے عبد الملک بن عمرو الخطمی اور عمرو بن شعیب نے روایت کی ایک روایت کے مطابق ان کا نام ہرم تھا انہیں بنو واقف سے شمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ غزوۂ خندق میں شریک تھے اور ان لوگوں میں شامل تھے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری مانگنے گئے تھے نیز انہوں نے خزیمہ سے روایت کی ہے۔
وہ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ وہ ہرمی جنہوں نے خزیمہ سے روایت کی وہ اس واقفی سے جو غزوہ سے جو غزوۂ خندق میں موجود تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری مانگنے گئے تھے مختلف آدمی ہیں۔ اگر ابن ماکولا ان اقوال کو ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کسی امام کی طرف منسوب کردیتے کیونکہ ان کے ہاں ایسے اختلاف کی کمی نہیں تو ان سے ذمہ داری کا بوجھ اترجاتا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ واللہ اعلم۔