سیّدنا ہشام رضی اللہ عنہ
سیّدنا ہشام رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن حکیم بن حزام بن خویلہ بن اسد بن عبد العزی میں قصی، قرشی اسدی حضرت خدیجہ الکبریٰ ان کے والد کی پھوپھی تھیں بقول ابو عمر وہ فتح مکہ کے دن ایمان لائے اور اپنے والد سے پہلے وفات پاگئے ابن مندہ کہتے ہیں کہ ہشام بن حکیم بن حزام مخزومی بن خویلدہ کا نام ملیکہ دختر مالک از بنو حارث بن فہر مذکور ہے ان کی وفات اپنے والس سے پہلے ہوئی اور بروایتے وہ جنگ اجنادین میں شہید ہوئے تھے عیاض بن غنم کے ساتھ انہیں جو واقعہ پیش آتا تھا وہ ہم عیاض کے ترجمے میں بیان کر آئے ہیں وہ ان لوگوں میں سے تھے جو او امر کا حکم دیتے اور نواہی سے روکتے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے جب کسی نا پسندیدہ کام کا ذکر ہوتا تو فرماتے جب تک میں اور ہشام زندہ ہیں ایسی بات نہیں ہوسکتی۔
ابراہیم بن محمد فقیہ وغیرہ نے باسنادہ ہم ابو عیسیٰ ترمذی سے بیان کیا کہ ہم سے حسن بن علی کے علاوہ اور کئی لوگوں نے بیان کیا کہ ان سے عبد الرزاق نے ان سے معمر نے ان سے زہری نے ان سے عروہ نے ان سے مسور بن محترمہ اور عبد الرحمان بن عبد القاری نے بیان کیا کہ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عین حیات میں ایک ایسے مقام سے گزرے جہان جناب ہشام نماز پڑھا رہے تھے اور سورۂ فرقان کی قرأت کر رہے تھے اس کے دوران میں انہوں نے بعض آیات کی قرأت ایسے طریقے پر کی جو اس قرأ کے خلاف تھی جو حضرت عمر رضی اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی وہ اثنائے نماز ہی میں ان پر جھپٹنا چاہتے تھے لیکن انہوں نے نماز کے ختم کرنے کا انتظار کیا جب وہ فارغ ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی چادر کو کھینچا اور دریافت کیا کہ تمہیں یہ آیات کس نے پڑھائی ہیں انہوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہ تم غلط کہتے ہو کیونکہ میں نے بھی یہ سورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے پڑھی ہے وہ انہیں گھسیٹ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ! ہشام نے سورۂ فرقان کی کچھ آیات کی تلاوت ایسے طریقے پر کی ہے، کہ جس طریقے پر حضور نے مجھے پڑھائی تھیں اس کی تلاوت اس سے مختلف ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب ہشام سے فرمایا اچھا تم وہ آیات پڑھو انہوں نے وہ آیات پڑھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری قرأت درست ہے بعدۂ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان آیات کی تلاوت کا حکم دیا، انہوں نے تعمیل ارشاد کی تو آپ نے فرمایا تمہاری قرأت بھی درست ہے اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن حکیم عرب کے ساتھ لہجوں کے مطابق نازل ہوا ہے تمہیں جو قرأت آسان معلوم ہو۔ وہ اپنالو تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔
علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں ہ ابن مندہ نے ہشام بن حکیم بن حزام مخزومی کو خویلد بن اسد کی اولاد سے شمار کیا ہے یہ بات ایک عالم سے بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ وہ ایک آدمی کو مخزومی لکھ کر اس کے سلسلۂ نسب کو بنو اسد تک لے جائے حالانکہ ہم پہلے لکھ آئے ہیں ہ وہ اسدی ہیں اور جن لوگوں نے انہیں مخزومی لکھا ہے وہ غلطی پر ہیں نیز ابو نعیم کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ جناب ہشام اجنادین میں شہید ہوئے تھے کیونکہ ۱۳ِ ہجری میں جنگ اجنادین میں شہید ہونے والے ہشام بن عاص تھے نیز ہشام بن حکیم بن حزام کا قصہ جو عیاض بن غنم کے ساتھ پیش آیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنگ اجنادین میں شہید نہیں ہوئے تھے۔ کیونکہ ابو نعیم نے باسنادہ بیان کیا ہے کہ جناب ہشام نے حمص میں عیاض بن غنم کو یہ دیکھا کہ وہ نبطیوں کے ایک گروہ سے وصولی جزیہ میں سختی سے پیش آرہے تھے جب جناب ہشام نے دیکھام تو کہنے لگے، اسے عیاض! کیا تمہیں معلموم نہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص دنیا میں کسی کو دکھ دیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے آخرت میں عذاب دے گا اور حمص کی فتح اجنادین کی فتح سے بہت بعدِ میں واقع ہوئی۔ مزید تفصیل کے لیے التاریخ الکامل کا مطالعہ کیجیے۔