سیّدنا ہشام رضی اللہ عنہ
سیّدنا ہشام رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن عاص بن وائل بن ہاشم بن سعید بن سہم بن عمرو بن ہصیض بن کعب بن لوئی قرشی سہمی ان کی والدہ کی کنیت ام حرملہ دختر ہشام بن مغیرہ تھی یہ عمرو بن عاص کے بھائی اور قدیم الاسلام تھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکے ہی میں تھے کہ جناب ہشام ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تھے جب انہیں معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینے چلے گئے ہیں تو جناب ہشام مکے آئے۔ تو ان کے قبیلے نے انہیں روک لیا اور پھر غزوۂ خندق کے بعد دوبارہ ہجرت کرکے مدینے آئے ہشام بڑے پارسا اور فاضل آدمی تھے اور عمرو بن عاص کے چھوٹے بھائی تھے ایک روایت میں مذکور ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکے ہی میں تھے کہ ان کے قبیلے نے انہیں روک لیا تھا۔
عبید اللہ بن احمد نے باسنادہ یونس بن بکیر سے انہوں نے اب اسحاق سے انہوں نے نافع سے انہوں نے ابن عمر سے انہوں نے اپنے والد سے سنا کہ جب ہم ہجرت کے لیے جمع ہوئے تو میں عیاش بن ابی ربیعہ اور ہشام بن عاص نے بنو غفار کے حوض کے پاس اکٹھا ہونے کا وعدہ کیا اور طے یہ پایا کہ جو شخص مقررہ صبح کو وہاں نہ پہنچ سکا تو یہ سمجھ لیا جائے گا کہ اسے روک لیا گیا ہے اور اس کے دوسرے دو ساتھیوں کو جانے کی اجازت ہوگی چنانچہ مقررہ صبح کو میں اور عیاش تو مقامِ موعود پر پہنچ گئے مگر ہشام نہ پہنچ سکے ہم سمجھ گئے کہ وہ کسی مصیبت میں پھنس گیا ہے اور اسی لیے نہیں آسکا۔
ہم نے مدینے کا رخ کیا ہم دل میں یہ سوچتے چلے آرہے تھے، کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کی توبہ کو کیسے قبول کرے گا۔ جنہوں نے اللہ کو پہچانا، رسول پر ایمان لائے اور دنیا کے مصائب سے ڈر کر دین سے رجوع کرلیا اور ہم لوگ ان خیالات کا اظہار اپنے بارے میں کررہے تھے۔ اس پر قرآنِ حکیم کی درج ذیل آیت نازل ہوئی۔
’’قل یا عبادی الذین اسرنوا علی انفہم، فلا تقنطوا من رحمۃ اللہ‘‘ الی آخرہ
جب میں نے یہ آیت سنی، تو اپنے ہاتھ سے لکھ کر ہشام بن عاص کو بھجوائی ہشام کہتے ہیں جب یہ آیت مجھے موصول ہوئی تو میں وادی ذی طوسی کی طرف نکل کھڑا ہوا چنانچہ اس آیت پر غور و خوض کرتا چلا آیا تاکہ میں اس کے مفہوم تک رسائی حاصل کرسکوں اس سے میں سمجھ گیا کہ اس آیت کا نزول ہمارے بارے میں ہوا ہے کیونکہ یہ خیال بار بار ہمارے ہی دلوں میں آرہا تھا پس میں اپنے اونٹ پر سوار ہوا اور حضور کی خدمت میں حاضر ہوگیا ایک روایت میں آیا ہے کہ ہشام حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جنگِ اجنادین میں ۱۳ِ ہجری میں شہید ہوئے ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہ جنگِ یرموک میں شہید ہوئے جناب ہشام نے غسان کے ایک آدمی پر حملہ کرکے اسے قتل کردیا اس پر غسانیوں نے ان پر حملہ کرکے انہیں قتل کردیا پھر سواروں کا دستہ ان کی میت کو کچلتا ہوا گزر گیا اور ان کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ پھر ان کے بھائی جنگ سے فراغت کے بعد لوٹ کر آئے اور ان کے جسم کے لوتھڑوں اور ہڈیوں کو جمع کرکے دفن کردیا۔
خالد بن معدان سے مروی ہے کہ جب جنگ اجنادین میں رومیوں کا لشکر بھاگ کھڑا ہوا تو اس اثنا میں وہ ایک ایسے تنگ درے کے دہانے پر جا پہنچے جہاں سے ایک وقت میں صرف ایک آدمی گزرسکتا تھا رومیوں نے اس مقام پر قبضہ کرلیا جناب ہشام نے بڑھ کر ان پر حملہ کیا اور وہ شہید ہوگئے درہ بند ہوگیا اور ایک ایک کرکے دشمن کا سارا لشکر ان کی میت کے اوپر سے گزر گیا جب اسلامی لشکر رومیوں کے تعاقب میں اس مقام پر پہنچا اور ان کی میت کو وہاں پڑا ہوا پایا۔ تو انہوں نے گوارا نہ کیا کہ وہ خود یا ان کے گھوڑے ان کے جسم کے اوپر سے گزریں لشکر کا یہ توقف دیکھ کر حضرت عمرو بن عاص نے انہیں یوں مخاطب کیا برادرانِ اسلام! میرے بھائی کو خدا نے شہادت کی نعمت سے سرفراز فرمایا اور اس کی روح کو اپنی طرف اٹھالیا جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں یہ اس کا جسم ہے اس لیے اسے روندنے میں کوئی حرج نہیں چنانچہ انہوں نے سواروں کے دستے کو گزرنے کا حکم دیا پھر خود گزرے۔ اور ان کے بعد لشکر گزرا جب دشمنوں کا تعاقب ختم ہوا تو عمرو بن عاص واپس آئے بھائی کے گوشت، ہڈیوں اور اعضاء کو جمع کیا اور چمڑے کے ایک ٹکڑے میں ڈال کر زمین میں دفن کردیا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث مروی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عاص کے دونوں بیٹے مومن ہیں تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔