ابن یزید بن علقمہ بن جوی بن سفیان بن مجاشع بن دارم بن مالک بن حنظلہ بن مالک بن زید مناہ بن تمیم تمیمی دارمی۔ نبی ﷺ کے حضور میں
بنی تمیم کے وفد میں عطارد بن حاجب اور اقرع بن حابس وغیرہما کے ساتھ آئے تھییہ سب لوگ اسلام لائے ابن اسحاق نے اور کلبی نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے رسول خدا ﷺ نے ان کے اور معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان مواخات کرا دی تھی جب حضرت معویہ کو خلافت حاصل ہوئی تو حتات اور جاریہ بن قدامہ اور احنف بن قیس ان کے پاس گئے یہ دونوں بھی قبیلہ بنی ثمیم سے تھے حتات حضرت عثمان کے دوستوں میں تھے اور جاریہ اور احنف حضرت علی کے اصحاب میں سے تھے حضرت معاویہ نے ان دونوں کو حتات سے زیادہ دیا تو حتات نے ان سے کہا کہ تم نے محرق (یعنی جلا دینے والے) اور مخذل (یعنی پریشان کرنے والے) کو مجھ پر فضیلت دی حضرت معاویہ نے کہا (میں نے فضیلت نہیں دی) بلکہ میں نے ان سے ان کا دین مول لیا ہے اور تم کو اس محبت پر چھوڑ دیاہے جو تم کو حضرت عثمان کے ستھ ہے حتات نے کہا مجھ سے بھی میرا دین مول لے لو جلا دینے ولا انھوں نے جاریہ بن قدامہ کو کہا کہ انھوں نے ابن حضرمی کو جلا دیا تھا اور پریشان کرنے والا احنف بن قیس کو کہا کہ انھوں نے حضرت عائشہ اور طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم سے لوگوں کو پریشان کر دیا تھا بعض لوگوں کا بیان ہے کہ حتات حضرت معاویہ کے پاس گئے اور انھیں کے یہاں وفات پائی اور حضرت معاویہ اس اخوت کے سبب سے ان کے وارث ہوئے حضرت معاویہ اس زمانہ میں خلیفہ تھے فرزوق نے اس معاملہ میں حضرت معاویہس ے مخاطب ہو کر یہ اشعار کہے تھے۔
ابوک وعمی یا معاوی اورثا تعاثا فیحتازالتراث اقاربہ فما بال میراث الحتات اکلتہ
و میراث مصحرحبا ملک ذائبہ فلوکان ھذا الامر فی جاھلیۃ علمت من المرء القلیل خلائبہ
ولو کان فی دین سواد اسنتم لناحقنا او غص بلاماء شاربہ الست اعزاک من قوما و اسرۃ
وامنعھم جار اذا ضیم جانبہ وما ولدت بعد النبی والہ کمثلی حصان فی الرجال تقاربہ
و بیتی الی جنب الثریا فنائہ من ونہ البدر المی کواکبہ انا ابن الجبال الشم فی عد الجصی
و عرق الثری عرقی ممن ذا یحاب
اس قصیدہ میں اس سے زیادہ اشعارہمیں اور فخریہ اشعار میں یہ سب سے عمدہ کلام ہے۔ انکا تذکرہ ابو عمر نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)