(سیدنا) حاطب (رضی اللہ عنہ)
(سیدنا) حاطب (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن ابی بلتعہ۔ ابو بلتعہ کانام عمرو بن عمیر بن سلمہ۔ بنی خالفہ سے ہیں جو ایک شاخ ہے لخم کی۔ اور ابن ماکولا نے کہا ہے کہ (انکا نسب اس طرح ہے) حاطب بن ابی بلتعہ بن عمرو بن عمیر بن سلمہ بن صعب بن سہل بن عتیک ابن سعاد بن راشدہ بن جزیلہ بن لخم بن دی۔ بنی اسد کے حلیف ہیں۔ کنیت ان کی ابو عبداللہ ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں ابو محمد اور بعض لوگوں کا بیان ہے کہ یہ قبیلہ مذحج سے ہیں اور حلیف ہیں بنی اسد بن عبد العزی کے بعد اس کے حضرت زبیر بن عوام بن خویلد بن اسد کے حلیف ہوئے۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ عبید اللہ بن حمید بن زبیر بن حارث بن اسد کے غلام تھے انھوںنے ان کو مکاتب (٭مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جس سے اس کا مالک یہ کہہ دے کہ تم اس قدر روپیہ مجھے دے دو تو آزاد ہو جائو گے یہ معاملہ بذریعہ تحریر و کتابت کے ہوا کرتا تھا جو روپیہ غلام دیتا اس کو بدل کتابت کہتے تھے) کر دیا تھا انھوں نے اپنا بدل کتابت فتح مکہ کے دن ادا کر دیا۔ جنگ بدر میں شریک تھے یہ موسی بن عقبہ کا اور ابن اسحاق کا قول ہے حدیبیہ میں شریک تھے۔ اللہ تعالی نے ان کے ایمان کی شہادت دی تھی اپنے اس قول میں یا ایھا الذین امنوا لاتتخزو ا عدوی و عدوکم اولیاء الایہ (٭ترجمہ۔ اے ایمان والو میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں سے نہ بنائو) اس سورت کے نزول کا سبب وہ ہے جو ہم سے اسماعیل بن عبید اللہ وغیرہ نے اپنی سند سے بیان کیا وہ محمد بن عیسی سے نقل کرتے تھے کہ انھوں نے کہا ہمیں ابن ابی عمر نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں سفیان نے عمرو بن دینار سے انھوں نے حسین بن محمد سے انھوں نے عبید اللہ بن ابی رافع سے نقل کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے میں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ رسول خدا ﷺ نے مجھے اور زبیر بن عوامکو اور مقداد کو بھیجا فرمایا کہ جائو یہاں تک کہ جب ۰مقام۹ روضہ خاخ میں پہنچنا تو وہاں ایک بڑھیا ملے گی اس کے پاس ایک خط ہے اس خط کو اس سے لے کر میرے پاس لے آئو چنانچہ ہم بہت تیزی کے ستھ گھوڑون کو دوڑاتے ہوئے چلے یہاں تکک ہ س مقم میں پہنچ گئے وہ بڑھیا ہمیں ملی م نے کہا کہ خط نکال اس نے کہا میرے پاس کوئی خط نہیں ہے ہم لوگوں نے کہا کہ تجھے یقینا خط نکالنا ہوگا ورنہ ہم تجھے برہنہ کریں گے حضرت علی کہتے تھے یہ سن کے اس نے اپنے جوڑے سے خط نکالا ہم وہ خط رول خدا ﷺ کے پاس لے آئے اس خط میں حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے چند مشرکین مکہ کے نام تحریر تھے حاطب بن ابی بلتعہ نے انھیں نبی ﷺ کے بعض معاملات کی خبر دی تھی حضرت نے فرمایا کہ اے حاطب یہ کیا بات تھی حاطب نے عرض کیا کہ یارسول اللہ میرے معاملہ میں عجلت نہ فرمایئے (اصل بات یہ ہے کہ۹ میں ایک شخص ہوں کہ قریش میں مل گیا ہوں در حقیقت قریش سے نہیں ہوں اور آپ کے ساتھ جو اور مہاجرین ہیں مکہ میں ان کی قرابتیں ہیں جن کی وجہ سے اپنے گھر والوںکی اور مال کی ۰جو مکہ میں ہے) حفاظت کرتے ہیں پس جب کہ ان میں میری کوئی رشتہ داری نہیں ہے تو میں نے یہ چاہا کہ میں کچھ احسان ان پر کروں جس کی وجہس ے وہ میرے اعزہ کی (جو مکہ میں ہیں۹ حفاظت کریں (اسی غرض سے میں نے یہ خط لکھا تھا) میں نے کفر کی وجہ سے یا اپنے دینس ے پھر کر یا کفر سے راضی ہو کر یہ کام نہیں کیا پس رسول خدا ھ نے فرمایا کہ یہ سچ کہتے ہیں۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (حکم ہو تو) اس منافق کی گردن مار دوں رسول خدا ﷺ نے فرمایا (نہیں یہ غزوہ بدر میں شریک ہوچکے ہیں اور اللہ اہل بدر کے حال سے مطلع ہے لہذا اس نے فرمایا
دیا ہے اعملوا ماشئتم فقد غفرت لکم (٭ترجمہ تم جو چاہو کرو میں نے تمہیں بخش دیا) حضرت علی کہتے تھے کہ انھیں کے حق میں یہس ورت نازل ہوئی یا ایھا الذین امنوا لاتتخزوا عدوی وعدوکم اولیاء تلقون الیھم بالمودۃ اس حدیچ کو ابو عبدالرحمن سلمی ن حضرت علی سے روایت کیا ہے اس خط کا واقعہ یوں ہے کہ نبی ﷺ نے جب سال فتح مکہ میں مکہ جہاد کا اردہ فرمایا تو اللہ سے دعا کی کہ کفار قریش کو اس کی اطلاع نہ ہونے پائے حاطب نے انھیں ارسول خدا ﷺ کے ارادہ جہاد سے خبر دار کرنے کے لئے یہ خط لکھا پس اللہ نے اپنے رسول کو اس سے آگاہ کر دیا چنانچہ آپ ن حضرت علی کو اور زبیر کو بھیجا اور اس کا یہی واقعہ ہوا جو ہم ذکر کرچکے۔ حاطب کو رسول خدا ھ نے سن۶ھ میں مقوقس شاہ اسکندریہ کے پاس بھیجا تھا (چنانچہ جب یہ اسکندریہ پہنچے تو) مقوقس نے ان کو اپنے پاس بلوایا اور کہا کہ مجھ سے اپنے صاحبک ی حالتبیان کرو کیا وہ بنی نہیں ہیں حاطب کہتے تھے میں نے کہا ہاں بے شک وہ خدا کے رسول ہیں مقوقس نے کہا پھر انھوں نے اپنی قوم پر بددعا کیوں نہ کی جب کہ ان کی قوم نے ان کو ان کے شہر سے نکالا حاطب کہتے تھے میں نے مقوقس کو یہ جواب دیا کہ عیسی بن مریم کی نسبت تو آپ خود کہتے ہیں کہوہ خدا کے رسول تھے پھر جب ان کو ان کی قوم نے سولی دینے کا ارادہ کیا تو انھوں نے کیوں نہ انھین بددعا دی یہاں تککہ ان کو اللہ نے آسمان پر اٹھا لیا مقوقس نے کہا تم نے اچھا جواب دیا تم حکیم ہو اور حکیم کے پاس سے آئے ہو اور مقوقس نے ان کے ساتھ رسول خدا ﷺ کے لئے ہدیہ بھیجا تھا اسی ہدیہ بن ماریہ قبطیہ اور ان کی بہن سیرین بھی تھیں اور ایک لونڈی اور تھی پس ماریہ کو تو رسول خدا ھ نے اپنے لئے رکھ لیا اور وہی ابراہیمفرزند نبی ﷺ کی والدہ ہیں اور سیرین کو آپ نے حسان بن ثابت کے حوالہ کر دیا ان کے بیٹے عبدالرحمن کی ماں ہیں اور دوسری لونڈی آپ نے ابو جہم بن حذیفہ عدوی کو دے دی مقوقس کنے حاطب کے ہمراہ کچھ لوگ بھی کر دیئے تھے جو ان کو امن کے مقام تک پہنچا دیں۔ حاطب کی وفات سن۳۰ھ میں ہوئی۔ حضرت عثمان نے ان کے جنازہ کی نماز پڑھائی تھی اس وقت ان کی عمر پینسٹھ سال کی تھی یحیی بن عبدالرحمن بن حاطب حاطبی نے اپنے والد سے انھوں نے ان کے دادا حاطب سے انھوں نے نبی ﷺ سے رویت کی ہے کہ آپ نے فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور عمدہ لباس پہنے اور (سویرے سے) جامع مسجد جائے اور (امام کے) قریب بیٹھے تو یہ بت اس کے لئے دورے جمعہ تک (تمام گناہوں سے) کفارہ ہو جائے گی ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)