بن عبیدبن خلف بن عبدنہم بن حذیفہ بن جہمہ بن غاضرہ بن حبیشہ بن کعب بن عمرو۔ خزاعی کعبی۔یہ ابن مندہ اورابونعیم کا قول ہے اورابوعمرنے کہاہے کہ عبدنہم بیٹے ہیں سالم بن غاضرہ کے اورکلبی نے کہاہے کہ عبدنہم بیٹے ہیں جرمہ بن جہیمہ کے اورباقی نسب میں سب کا اتفاق ہے ان کی کنیت ان کے بیٹے کانام نجید تھا۔یہ فتح خیبرکے سال اسلام لائےتھےاوررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شریک رہے۔ان کو حضرت عمربن خطاب نے بصرہ بھیجاتھاتاکہ وہاں کے لوگوں کو علم دین سکھائیں اورعبداللہ بن عامر نے ان کو بصرہ کاقاضی بنایاتھاچنانچہ یہ چند روز وہاں رہے بعداس کے انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔محمد بن سیرین نے بیان کیاہے کہ ہم نے بصرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی کو نہیں دیکھاجوعمران بن حصین سے کسی کو افضل کہتاہو بڑے مستجاب الدعوات تھےکسی فتنہ میں شریک نہیں ہوئے۔انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث کی روایت کی ہے ان سے حسن بصری اورابن سیرین وغیرہ نے روایت کی ہے۔ہمیں اسماعیل اورابراہیم وغیرہ نے اپنی سند محمدبن عیسیٰ تک پہنچاکرخبردی وہ کہتےتھے ہمیں محمد بن بشارت نے خبردی وہ کہتےتھےہم سے محمدبن جعفرنے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے شعبہ نے قتادہ سے انھوں نے حسن بصری سے انھوں نے عمران بن حصین سے روایت کرکے خبردی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے داغ دینے سے منع فرمایاہے عمران کہتےتھےکہ ہم نے جب داغ دیاتوکچھ فائدہ نہ دیکھا جب یہ بیمارہوئے توفرشتے ان کو سلام کرتے تھے مگرلوگوں نے ان کے داغ دےدیاتووہ سلام موقوف ہوگیاپھرچند روز کےبعدوہ جاری ہوگیاان کو استسقا کی بیماری تھی اورکئی برس تک رہے انھوں نےاس پر صبرکیاپھران کا شکم چاک کیاگیااوراس سے چربی نکالی گئی پاخانہ کے لیےمیں چارپائی میں سوراخ کردیاگیاتھایہی ان کی تیس برس تک رہی ایک مرتبہ ایک شخص ان کےپاس گیااورکہنے لگاکہ اے ابونجیدواللہ میں آپ کی عیادت کوصرف اس وجہ سے نہیں آتا کہ آپ کی یہ حالت آکر دیکھتاہوں توانھوں نے کہاکہ اے بھتیجےتم میرےپاس نہ بیٹھو خداکی قسم جو حالت میری اللہ تعالیٰ کوپسند ہووہی مجھے زیادہ محبوب ہے ۵۳ھ ہجری میں بمقام بصرہ انھوں نے وفات پائی ان کے سراور داڑھی کے بال سفید تھے ان کی اولادبصرہ میں تھی۔
(اسد الغابۃ جلد بمبر 6-7)