غنوی۔ ہمیں ابو موسی نے اجازۃ خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو علی حداد نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں احمد بن عبداللہ بن احمد نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں عبداللہ بن جعفرنے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں اسماعیل بن عبداللہ نے خبر دی وہ کہتے تھے موسی بن اسماعیل نے خبر دی نیز ابو موسی کہتے ہیں ہمیں اسماعیل بن فضل بن اخشید نے خبر دی اور روایت میں الفاظ بھی انھیں کے ہیں وہ کہتے تھے ہمیں ابو طاہر بن عبدالرحیم نے خبر دی وہ کہتیت ھے میں محمد بن ابراہیم بن علی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں احمد بن علی بن مثنی نے خبر دی وہ کہے تھے ہمیں ابو خیثمہ ن خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں یونس بن محمد نے خبر دی (اس کے بعد) دونوں ہتے تھے کہ ہمیں بشار بن عبدالملک مزنی نے خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے میری دادی ام حکیم بنت دینار مزینہ نے اپنی مولی ام اسحاق عنویہ سے انھوں نے رسول خدا ﷺ سے نقل کر کے خبر دی کہ ام اسحاق نے بقصد مدینہ مکہ سے ہجرت کی وہ اور ان کے بھائی ۰دونوں چلے) یہاں تک کہ اثناے راہ میں ان سے ان کے بھائی نے کہا کہ ام اسحاق تم بیٹھ جائو میں مکہ جاکے اپنا ناشتہ لے آئوں وہیں بھول آیا ہوں ام اسحاق نے کہا مجھے خوف ہوتا ہے کہ وہ فاسق ۰یعنی میرا شوہر) تمہیں قتل کر دے گا مگر ان کے بھائی ۰نے نہ مانا اور وہ) ان کو وہیں چھوڑ کے مکہ چلے گئے اتنے میں ایک سوار تین روز کے بعد مکہ سے آیا اور اس نے کہا کہ اے ام اسحق تم یہاں یوں بیٹھی ہوئی ہو انھوںنے کہا کہ میں اپنے بھائی اسحاق کا انتظار کر رہی ہوں اس سوار نے کہا کہ اسحاق تمہارا اب کہاں وہ جب مکہ سے نکلا تو اسے تمہارا شوہر مل گیا اور اس نے اسے قتل کر دیا ام اسحق کہتی ہیں میں انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتی ہوئی وہاںسے اٹھ کھڑی ہوئی یہاں تک کہ مدینہ پہنچی اور رسول خدا ﷺ اپنی بی بی حفصہ بنت عمر کے یہاں تشریف رکھتے تھے بیٹھے ہوئے وضو کر رہے تھے میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ میرا بھائی اسحق قتل کر دیا گیا اور (اس وقت) میں آپ کی طرف بہت تیز نظر سے دیکھ رہی تھی اور آپ وضو کر رہے تھے پھر ایک تھوڑی سی دیر کے لئے میری نظر اپ کی طرف سے ہتی تو آنے اپنے ہاتھ میں پانیلے کے کے میرے اوپر چھڑک دیا۔ (بشار بن عبدالملک راوی کہتے ہیں۹ میری دادی کہتی تھیں کہ بعد رسول خدا ﷺ کی وفات کے ہمیں بڑی بڑی مصیبتیں پہنچتی تھیں اور ہم دیکھتے تھے کہ ام اسحق کے آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے ہیں مگر ان کے چہرے (٭یعنی رسول خدا ﷺ کے پانی چھڑک دینیکی برکت سے پھر کبھی کسی مصیبت پر انھیں بے قراری نہیں ہوئی) تک نہیں آتے تھے یہ حدیث بشار کی روایت سے مشہور ہے۔ اس کو ابو عاصم اور عبدالصمد بن عبدالوارث وغیرہ نے بشر سے روایت کیا ہے۔ ان کا تذکرہ ابو نعیم اور ابو موسی نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)