ابن صخر بن امیہ بن خنساء بن سنان بعض لوگ کہتے ہیں خنبس بن منان بن عبید بن عدی بن غنم بن کعب بن سلمہ انصاری خزرجی ثم السلمی۔ کنیت ان کی ابو عبداللہ ہے والدہ ان کی سعاد بنت سلمہ ہیں جشم بن خزرج کی اولاد سے بیعت عقبہ اور بدر اور احد اور تمام مشاہد میں رسول خدا ﷺ کے ہمراہ شریک تھے۔ ہمیں ابو یاسر یعنی ہبۃ اللہ ابن عبدالوہاب جبۃ اللہ نے اپنی سند سے عبداللہ بن احمد سے رویت کر کے خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں حسین بن محمد نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو اویس نے شرحبیل سے انھوں نے جبار بن صخر انصاری سے جو بنی سلمہ میں سے ایکشخص سے نقل کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے رسول خدا ﷺ نے (ایک مرتبہ اثنائے) راہ میں فرمایا کہ کون ہے جو ہمس ے پہلے (مقام) اثایہ میں پہنچ جائے اور وہاں کا حوض بھر دے اور س میں خوب پانی بھرے یہاں تک کہ اس و ہمارے پہنچے تک پر کر دے۔ میں نے عرض کر دیا کہ میں (اس خدمت کو انجام دوں گا) آپ نے فرمایا جائو چنانچہ میں گیا اور اثایہ میں پہنچا اور میں نے وہاں کا حوض بھر دیا اور خوب بھرا یہں تک کہ اس کو پر کر دیا بعد اس کے مجھے نیند غالب ہوئی اور میں سوگیا پھر اس وقت جاگا کہ ایک شخص کااونٹ پانی کی طرف جارہا تھا اس نے اونٹ کو روک کر کہا کہ اے حوض والے میں تیرے حوض میں پانی پلائو (میں نے جو آنکھ کھول کر دیکھا) تو وہ رسول خدا ﷺ تھے میں نے عرض کیا کہ ہاں پس آپ نے اپنے اونٹ کو پانی پلایا بعد اس کے لوٹ گئے پھر آپ نے مجھ سے فرمایا کہ ایک برتن میں پانی لے کر میرے پیچھے چلے آئو چنانچہ میں آپکے پیچھے پیچھے پانی لے چلا آپ نے اس سے وضو فرمایا اور خوب اچھا وضو کیا میں نیبھی آپ کے ہمراہ وضو کیا پھر آپ نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے میں آپ کی بائیں جانب کھڑ ہوگیا آ نے مجھے اپنی داہنی جانب کھڑا کر لیا پھر میں نے اور آپ نے نماز ڑھی بعد اس کے لوگ آگئے۔ ان کا ذکر جابر بن صخر کے بیان میں ہوکچا ہے مگر جبار زیادہ صہیح ہے۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے مگر ابن مندہ اور ابو نعیم نے کہا ہے کہ ان کو رسول کدا ھ نے مشرکوں کے پاس جاسوس بنا کے جابر کے ہمراہ بھیجا تھا حالانکہ ایسا نہیں ہے ان دونوں کو حضرت نے پانی بھرنے کے لئے بھیجا تھا جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں اور ان دونوں نے بھی اس کو متن حدیث میں ذکر کیا ہے پس ان دونوں نے اپنے قول سے خود اپنے ہی اوپر اعتراض کر لیا واللہ اعلم۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)