(سیدنا) جبیر (رضی اللہ عنہ)
(سیدنا) جبیر (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن مطعم بن عدی بن نوفل بن عبد مناف بن قصی۔ قرسی ہیں نوفلی ہیں۔ کنیت ان کی ابو محمد ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں ابو عدی ہے۔ ان کی والدہ ام حبیب ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں ام جمیل بنت سعید بنی عامر بن لوی سے۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں ام جمیل بنت شعبہ بن عبداللہ بن ابی قیس بن عامربن لوی سے۔ اور جبیر کی والدہ کی والدہ ام حبیب بنت عاص ابن امیہ بن عبد شمس۔ یہ زبیر کا قول ہے۔ بردباران قریس اور ان کے سرداروں میں سے تھے۔ ان سے قریش کا بلکہ تمام عرب کے نسبکا علم حاصل کیا جاتاہے اور یہ کہتے تھے کہ میں نے نسب (کا علم) ابوبکر صدیق رضیالہ عنہس ے حاصل کیا ہے۔ یہ نبی ھ ک حضور میں حاضر ہوئے تھے اور ایسران بدر کی سفارش کی تھی آپنے فرمایاکہ اگر تمہارے بوڑھے باپ زندہ ہوتے اور وہ ان کی بابت کہتے تو بے شک ہمان کی سفارش مان لیتے ان کے ولد کا رسول خدا ھ پر ایک احسان تھا انھوں نے رسول خدا ﷺ کو پناہ دی تھی جب آپ طائف سے لوٹ کر آئے جب کہ آپ نے قبیلہ ثقیف کے لوگونکو السام کی طرف بلایا۔ وہ انھیں لوگوں میں سے تھے جو اس تحریر کے منسوخ کرنیکے لئے مستعد ہوگئے تھے جو قریش نے بنی ہاشم اور بنی مطلب کی بابت کی تھی ابو طالب نے اپنے شعر میں انھیں کو مراد لیا ہے شعر
امطعم ان القوم ساموک خطہ وانی متی او کل فلست باکل
(٭ترجمہ اے مطعم کیا تم کو ہم نے متفق ہو کر آزردہ کیا اور میں جب تک زندہ ہوں (ان کے ساتھ) رکھا عرب نے باہم ایک تحریر دمعاہدہ کیا تھا کہ بنی ہاشم کے ساتھ نشست برخاست خرید و فروخت اکل شب سب موقوف کر دیا ائے یہ معلوم نہیں آنحضرت کی عداوت پر ہوا تھا ابو طالبنے س وقت حضرت کا بہت ساتھ دیا جیسا کہ ایک چاہنے والا باپ اپنے بیٹے کے ستھ کرتا ہے ویسا انھوں نے حضرت کے ستھ کیا ابو طالب کا ایک بہت برا قصیدہ آنحضرت ﷺ کی مدح میں ہے جس کا ایک شعر صحیح بکاری میں بھی مروی ہے اس قصیدہ کا ایک شعر یہ بھی ہے)
مطعم کی وفات بدر سے سات مہینے پہلے ہوئی۔ انکے بیٹے جبیر حدیبیہ کے بعد فتح مکہس ے پہلے اسلام لائے اور بعض لوگ کہتے ہیں فتح مکہ میں اسلام لائے۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے غزوہ فتح (مکہ میں اس شب کو جس شبکہ آپ مکہ کے قریب پہنچ گئے فرمایا کہ مکہ میں چار شخص قریس کے ہیں میں انھیں شرکس ے علیحدہ کروں گا اور انھیں اسلام کی ترغیب دوں گا (وہ چار شخص یہ ہیں) عتاب بن سید، جبیر بن مطعم، حکیم بن حزام، سہیل بن عمرو۔ ان سے سلیمان بن صرد نے اور عبدالرحمن ابن ازہر نے اور ان کے دونوں بیٹوں نافع اور محمد نے روایت کی ہے۔ ہمیں ابو محمد ارسلان بن بغان صوفی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوبکر احمد بن علی بن خلف شیرزی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں حاکم ابو عبداللہ حافظ نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابوبکر احمد بن اسحاق بن ایوب نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں عمر بن حفص سدوسی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں عاصم بن علی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیںابراہیم بن سعد نے اپنے والد سے انھوں نے محمد بن جبیر بن مطعم سے انھوں نے اپنے والد سے نقل کر کے خبر دی وہ کہتے تھے کہ نبی ﷺ کے حضور میں ایک عورت آئی اور اس نے آپ سے کسی معاملہ (٭یہ حدیث بخاری مسلم ترمذی ابودائود ابن ماجہ میں ہے یہ نہیں معلوم ہوا کہ کس معاملہ میں تھی اس حدیث میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف ) میںکچھ گفتگو کی آپ نے حکم دیا کہ ھپر لوٹ کر آنا اس نے عرض کیا کہ یارسول اللہ بتایئے اگر میں پھر لوٹ کر آئوں اور آپ کو نہ پائوں گویا مراد اس کی موت تھی آپ نے فرمایا اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر پاس آنا جبیر کی وفات سن۵۷ھ میں ہوئی اور بعض لوگ کہتے ہیں سن۸۰ھ میں اور بعض لوگ کہتے ہیں سن۵۰ھ میں۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)