(سیدنا) جابر (رضی اللہ عنہ)
(سیدنا) جابر (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن عبداللہ بن عمرو بن حرام بن کعب بن غنم بن کعب بن سلمہ یہ جابر اور وہ جابر جنکا ذکر ان سے پہلے ہوا غنم بن کعب میں جاکے مل جاتے ہیں یہ دونوں انصاری ہیں سلمی ہیں بعض لوگوں نے ان کے نسب میں اور کچھ بھی بیان کیا ہے مگر یہی زیادہ مشہور ہے ان کی والدہ نسیبہ بنت عقبہ بن عدی بن سنان بن نابی بن زید بن حرام بن کعب بن غنم۔ ان کی والدہ اور ان کے والد حرام میں جاکے مل جاتے ہیں۔ ان کی کنیت ابو عبداللہ ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں ابو عبدالرحمن مگر پہلاقول صحیح ہے بیعت عقبہ ثانیہ میں بحالت صعر اپنے والد کیہمراہ شریک تھے بعض لوگوںنے کہا ہے کہ غزوہ بدر میں شریک تھے اور بعض لوگوں نے کہاہے کہ شریک نہ تھے اسی طرح غزوہ احد (کی نسبت بھی اختلاف ہے) ہمیں ابو الفضل منصور بن ابی الحسن ابن ابی عبداللہ مخزومی نے اپنی سند سے احمد بن علی بن مثنی تک خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو خثیمہ نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں روح نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں زکریا نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمس ے ابو الزبیر نے بیان کیا کہ انھون نے حضرت جابر کو یہ کہتے سنا کہ میں رسول خدا ﷺ کے ہمراہ سترہ غزوات میں شریک تھا جابر کہتے تھے میں بدر اور احد میں شریک نہ تھا میرے والد نے مجھے روک لیا چنانچہ جب وہ احد میں شہید ہوگئے تو پھر میں کسی جہاد میںرسول خدا ﷺ سے یچھے نہیں رہا اور کلبی نے کہا ہے کہ حضرت جابر احد میں شریک تھے۔ بعض لوگوںکا بیان ہے کہ انھوں نے نبی ﷺ کے ہمراہ اٹھارہ غزوات کئے اور صفین میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہمراہ بھی اخیرعمر میں نابینا ہوگئے تھے۔ اپنی بھوں کو منڈواتے تھے اور زرد خضاب لگاتے تھے۔ شرکائے بیعت عقبہ میں سے مدینہ میں سب کے بعد انھیں کی وفات ہوئی۔ ابن مندہ نے ان کے تذکرہ میں لکھاہے کہ رسول خدا ﷺ بحالت قیام مکہ مکرمہ موسم (حج) میں تشریف رکھتے تھے اور انصار کے بھی کچھ لوگ اس سال حج کے لئے مدینہ سے آئے ہوئے تھے جن میں اسعد بن زرارہ اور جابر بن عبداللہ سلمی اور قطبہ بن عامر تھے راوی نے ان تمام لوگوں کا نام ذکر کیا تھا وہ کہتا تھا کہ رسول خدا ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور انھیں اسلام کی ترغیب دی بعد اس کے راوی نے پوری حدیث ذکر کی ابن مندہ نے سمجھا ہے کہ یہ جابر بن عبداللہ سلمی وہی جابر ہیں جو عبداللہ بن عمرو بن حرام کے بیٹے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے وہ جابر (جن کا ذکر اس روایت میں ہے) عبداللہ بن رباب کے بیٹے ہیں جن کا ذکر اس تذکرہ سے پہلے ہوچکا ہے اور یہ جابر (جنکا ہم اب ذکر کر رہے ہیں) ان سب لوگوں سے کم سن تھے جو اپنے والد کے ہمراہ بیعت عقبہ ثانیہ میں شریک تھے پس یہ بہت بعید ہے کہ باوجود کم سنی کے یہ ان سب کے سردار اور رئیس سمجھے جائیں علاوہ اس کے ائمہ سے بصحت منقول ہے کہ وہ جابر (جن کا ذکر اس روایت میں ہے) عبداللہ ابن رباب کے بیٹے ہیں۔ واللہ اعلم۔
یہ جابر حدیث کے زیادہ روایت کرنے والوں اور حدیث کے حافظوں میں ہیں۔ ان سے محمد (٭یعنی امام باقر فزند امام زین العابدین فرزند امام حسین رضی اللہ عنہم اور صاہم) بن علی بن حسین نے اور عمرو بن دینار نے ور ابو الزبیر مکی نے اور عطا نے اور مجاہد وغیرہ نے روایت کی ہے۔ ہمیں عبداللہ بن حمد بن عبدالقاہر نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو الخطاب نصر بن احمد بن عبداللہ قاری نے اجازۃ خبر دی وہ کہتے تھے کہ ہمیں حسن بن احمد بن ابراہیم بن شاذان یعنی ابو علی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں عثمان بن احمد دقاق نے خبر دی وہ کہتے تھے ہیں عبدالملک بن مہمد یعنی ابو قلابہ رقاشی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو ربیعہ نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو عوانہ نے اعمش سے انھوں نیابو سفیان سے انھوں نے جابر بن عبداللہ سے نقل کر کے خبر دی کہ انھوں نے کہا میں نے رسول خدا ﷺ کو فرماتے ہوئے سناہے کہ سعد بن معاذ کی موت سے رحمن کا عرش ہل گیا جابر سے کسی نے کہا کہ براء تو کہتے تھے کہ (رحمن کا تخت مراد نہیں بلہ جنازے کا) تخت ہل گیا جابر نے کہا کہ ان دونوں قبیلوں یعنی اوس اور خزرج کے درمیان میں باہم عداوت تھی (اس وجہس ے براء نے ایسا کہا) میں نے خود رسول خدا ﷺ کو یہف رماتے ہوئے سناہے کہ رحمن کا عرش ہل گیا۔
میں کہتا ہوںکہ جابر بی ھقبیلہ خزرج سے ہیں مگر ان کی دینداری نے ان کو حق بات کے کہنے اور اس کے چھپانے والے پر اعتراض کرنے پر مجبور کر دیا۔ ہمیں اسماعیل بن عبید اللہ بن علی نے اور ابو جعفر یعنی احمد بن علی نے اور ابراہیم ابن محمد بن مہران نے اپنی سند سے ابو عیسی یعنی محمد بن عیسی ترمذی تک خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے ابن ابی عمر نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں بشر بن سری نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں حماد بن سلمہ نے ابو الزبیر سے انھوں نے جابر سے نقل کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے میرے لئے رسول خدا ھ نے اونٹ والی رات میں پچیس مرتبہ استغفار کیا اونٹ والی رات سے مراد وہ رات ہے جس میں انھوںنے رسول خدا ﷺ کے ہاتھ ایک اونٹ (٭اس کا واقعہ مختصر اس طرح ہے کہ ایک اونٹ ان کے پاس تھا جو کسی طرح چلائے نہ چلتا تھا آنحضرت ﷺ نے اسے اپنے دست مبارک سے مارا وہ ایسا تیز زد ہوگیا کہ سبحان اللہ حضرت نے وہ اونٹ مول لے لیا اور مدینہ منورہ پہنچ کر اس کی قیمت دے دی اور اونٹ بھی دے دیا) اور ختم اور نقیر اور فرضت میں میں نے سے منع فرمایا تھا اس حدیث کو ابن مندہ نے علی بن مدینی کی سند سے اسی طرح روایت کیاہے اور عبداللہ بن احمد بن حنبلی نے اپنے والد سے انھوں نے حارث بن مرہ سے انھوں نے نفیس سے روایت کیا ہے انھوں نے بھی کہا ہے کہ جابر نے ایسا ہی بیان کیا۔ یہ حدیث ہمیں عبدلاوہاب بن ہبۃ اللہ نے اپنی سند سے عبداللہ بن احمد سے روایت کر کے سنائی۔ انکا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)