۔
ابن عتیک اور بعض لوگ کہتے ہیں ان کا نام جبر بن عتیک بن قیس بن حارث بن ہشیہ بن حارث بن امیہ بن زید بن معاویہ ابن مالک بن عمرو بن عوف بن مالک بن اوس انصاری اوسی۔ بنی معاویہ میں سے ہیں یہ ابن اسحاق کا قول ہے کلبی نے ان کا نسب ایسا ہی بیان کیا ہے صرف یہ کہ انھوںنے پہلے حارث کو اور زید کو (منسب سے) ساقط کر دیا ہے۔ یہ جابر بدر میں اور تمام غزوات میں رسول خدا ھ کے ہمراہ شریک تھے۔ کنیت ان کی ابو عبداللہ ہے اور ابن مندہ نے کہا ہے کہ کنیت ان کی ابو الربیع ہے۔ ابو نعیم نے کہا ہے کہ یہ وہم ہے یہ کنیت عبداللہ بن ثابت ظفری کی ہے۔ سال فتح (مکہ) میں بنی معاویہ کا جھنڈا انھیں (جابر) کے ہاتھ میں تھا یہ بھائی ہیں حارث ابن عتیک کے ان سے ان کے دونوں بیٹوں عبداللہ اور ابو سفیان نے اور عتیک بن حارث بن عتیک نے روایت کی ہے۔ ہمیں فتیان بن احمد بن محمد معروف بہ ابن سمیںہ جوہری نے اپنی سند سے قعبنی سے انھوںنے مالک بن انس سے انھوںنے عبداللہ بن عبداللہ بن جابر بن عتیک سے انھوںنے عتیک بن حارث بن عتیک سے جو عبداللہ یعنی ابو امامہ کے دادا تھے نقل کر کے خبر دی کہ جابر بن عتیک نے ان سے بیان کیا کہ رسول خدا ﷺ عبداللہ ن ثابت کی عیادت کرنے کو تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ وہ بے ہوش ہیں رسول خدا ﷺ نے انھیں چلا کے پکارا مگر انھوں نے جواب نہیں دیا تو آپ نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور فرمایا کہ اے ابو الربیع تمہمس ے جدا کر لئے گئے پس عورتیں چلا کے رونے لگیں ابن عتیک نے ان کو چپ کرنا چاہا تو رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ انھیں چھوڑ دو وہاں جب یہ گر جائیں تو اس وقت کوئی رونے والی نہ روئے لوگوںنے عرض کیا کہ یارسول اللہ گر جانا کیا معنی آپنے فرمایا جب مر جائیں۔ ان کی بیٹی نے کہا کہ خدا کی قسم میں اس بات کی امیدوار تھی کہ یہ شہید ہوں گے (نہ یہ کہ اپنے بستر پر مریں گے) کیوں کہ (اے ابو الربیع) تم نے اپنے جہاد کا سامان بالکل ٹھیک کر لیا تھا تو رسول خدا ﷺ نے فرمایا ہ اللہ سبحانہ نے ان کا ثواب ان کی نیت کے موافق مقدر کر دیا ہے اور تم لوگ شہادت کس کو کہتے ہو صحابہ نے عرض کیا کہ قتل فی سبیل اللہ کو رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ سوا قتل فی سبیل اللہ کے (اور طریقوں سے بھی لوگ) شہید ہوتے ہیں طاعون میں جو مرے وہ بھی شہید ہے پیٹکے مرض میں جو مرے وہ بھی شہید ہے جل کرجو مرے وہ بھی شہید ہے کسی چیز کے نیچے دب کے مر جائے وہ بھی شہید ہے عورت جو حمل میں مر جائے وہ بھی شہید ہے۔
ابن جابر کی وفات سن۶۱ھ میں ہوئی عمر ان کی اکانوے سال کی تھی۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)