ابن قیس بن صخر بن خنساء بن سنان بن عبید بن عدی بن غنم بن کعب ابن سلمہ انصاری سلمی۔ کنیت ان کی ابو عبداللہ۔ براء بن معرور کے چچازاد بھائی ہیں ان سے جابر نے اور ابوہریرہ نے روایت کی ہے۔ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی طرف نفاق کا گمان کیا جاتا ہے۔انھیں کے حق میں اللہ تعالی کا یہ قول نازل ہوا تھا ومنہم من یقول ائذن لی ولا تفتنی الا فی الفتنہ سقطوا (٭ترجمہ ان (منافقوں) میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ (اے نبی) مجھے (جہاد میں نہ جانے کی) اجازت دیجئے اور مجھے فتنہ میں نہ ڈالئے آگاہ ہو وہ خود فتنہ میں گرے ہیں) اس کا واقعہ یوں ہے کہ رسول خدا ﷺ نے (ایک مرتبہ اپنے اصحاب سے) فرمایا کہ اہل روم سے جہاد کرو تمہیں رومی لڑکیاں غنیمت میں ملیں گی تو جد بن قیس نے کہا کہ سب انصار جانتے ہیں کہ میں جب عورتوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے صبر نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں فتنے میں پڑ جاتا ہوں (لہذا میں آپ کے ساتھ نہ جائوں گا) ہاں میں اپنے مال سے آپ کی مدد کروں گا اسی پر یہآیت نازل ہوئی ومنہم من یقول ائذن ولا تفتنی زمانہ جاہلیت میں تمام بنی سلمہ کے یہ سردار تھے مگر رسول کدا ﷺ نے ان سے سرداری نکال لی تھی اور ان کی جگہ پر عمرو بن جموح کو نقیب مقرر فرمایا تھا حدیبیہ کے دن یہ حاضر تھے رسول خدا ﷺ سے سب لوگوں نے بیعت کی مگر جد بن قیس نے بیعت نہیں کی یہ حضرت کی اونٹنی کے نیچے چھپ رہے تھے ہمیں عبید اللہ بن احمد بن علی نے اپنی سند سے یونس بن بکیر تک خبر دی وہ ابن اسحاق سے روی ہیں کہ وہ کہتے تھے حدیبیہ میں رسول خدا ﷺ کی بیعت سے کوئی مسلمان پیچھے نہیں رہا سوا جد بن قیس کے جو بنی سلمہ کے بھائی تھے۔ جابر بن عبداللہ کہتے تھے گویا میں اب بھی جد بن قیس کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ رسول خا ﷺ کی اونٹنی کے پہلو سے لپٹے ہوئے ہیں یہ اس سے محض اس لئے لپٹے تھے جس میں لوگوں کی نظر سے چھپ جائیں بعض لوگوں کا قول ہے کہ پھر انھوں نے توبہ کی اور ان کی توبہ اچھی رہی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں وفات پائی۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)